فل کورٹ کی درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے،چیف جسٹس

44 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد:سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران سماعت بینچ کے اٹارنی جنرل سے کڑے سوالات،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ فل کورٹ کی درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے۔جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے کہا آئین کے مقدمات عدالتیں روز سنتی ہیں کیا اپ فل کورٹ کی کے اندر کی صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کیس کاروائی کی ۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ ”سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل“ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی ۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔ اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا 1973 کے ائین میں روپز میں ترامیم سے متعلق صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔ تاہم رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی۔ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا، اس لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے۔ کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟۔ کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ یقین کیسے ہوگا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے؟۔ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر یہ آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے۔ عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانون سازی کا اختیار چیلنج ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہو گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ کی منطق یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل کے مطابق 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا۔ یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایاہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے۔ 2012ء میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جاچکا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا۔ جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے۔ عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس آئینی کا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ مستقبل کے لیے ہوتاہے۔ 20سال بعد شاید زمینی حالات اور آئین مختلف ہو۔

فل کورٹ کی تشکیل پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو نے کے بعد ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل میں کہا کہ حکم امتناع کے زریعے پہلی مرتبہ قانون پر عملدرآمد روکا گیا ہے۔فل کورٹ کے لیے بینچ درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں۔جسٹس فائز عیسی کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھیجواتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسی کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے، ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے، معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا،دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دئیے کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔

بعدازاں چیف جسٹس نے بتایا کہ بینچ میں شامل جج تین ہفتوں کیلئے دستیاب نہیں اس لئے سماعت کوغیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

Comments are closed.