سپریم کورٹ 14 مئی انتخابات پر قائم، 27 اپریل تک معاملہ موخر
فائل:فوٹو
اسلام آباد: سپریم کورٹ 14 مئی انتخابات پر قائم، 27 اپریل تک معاملہ موخر، سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہو سکا، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر سماعت کے ددوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے اپنا 14 مئی کا فیصلہ قائم رکھنا ہے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ قائم ہے اور نہیں بدلے گا.
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست نہیں آئی، وزارت دفاع کی درخواست مذاق لگی، ہم آج بھی سب کو سننے کے لیے تیار ہیں، کل بھی عید نہ ہوئی تو سن لیں گے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہاہے۔تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی لیڈران آ رہے ہیں کسی کو تنگی نہ ہو مزید کرسیاں لگا دیں، مولا کریم لمبی حکمت دے تاکہ صحیح فیصلے کر سکیں۔ ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے اور عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے۔ ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے دیکھتے ہیں کہ حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہماری جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔
وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار شاہ خاور ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے اس لیے مناسب ہوگا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں اور صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے اس لیے قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہوگی۔
جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں اور درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نذر ہوگیا، فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا اور اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوگئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف دیا کہ خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ اور طارق بشیر چیمہ بھی آئے ہیں جبکہ ایک کیو ایم سے صابر قائم خانی، ایاز صادق اور بی این پی بھی موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی،۔
چیف جسٹس نے کہا حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی یاد رکھنا چاہیئے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا،مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی ،دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں،
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں، ۔عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمان سے بات کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے، توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے، آج دو بجے تک بتائیں کیا پیشرفت ہوئی، عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلے کو اگنور نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے، آج ظہر کے بعد پیشرفت سے آگاہ کریں۔
بعدازاں عدالت نے سیاسی جماعتوں کو4 بجے تک مذاکرات کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا جبکہ وقفہ کے بعد سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.