عدالت کو آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے تشویش ہے۔ چیف جسٹس
اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام )عدالت عظمی میں حکومتی شخصیات کی تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت ہوئی، اس دورا ن چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے تشویش ہے۔ چیف جسٹس نے کہا نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
عدالت عظمیٰ میں نے ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ عمل نہ ہونے کی صورت میں حکم جاری کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ملزم کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا جو عدالت عظمیٰ نے شامل کروایا تھا۔ نیب مقدمات کے نام ای سی ایل میں کون شامل کرواتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ای سی ایل میں نام چیئرمین نیب کی ہدایت پر شامل کیے جاتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے۔
نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے لیکن نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مطابق اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے۔ حکومت کہتی ہے کہ بیرون ملک جانا بنیادی حق ہے، اگر ایسا ہے تو ای سی ایل کا کیا جواز رہ گیا ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے۔ ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے، لیکن ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں۔ ہم ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔
جسٹس منیب اختر کے استفسار کہ ای سی ایل ترامیم کا گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ کس نے کیا؟ کا جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ نام نکالنے اور گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ سب کمیٹی کی سفارشات پر ہوا۔
ایف آئی اے کے ڈی جی لاء نے عدالت کو بتایا کہ شرجیل میمن سمیت 8 افراد ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں، کسی کی مداخلت تسلیم نہ کی جائے۔
اس دوران عدالت نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ مانگتے ہوئے حکم جاری کیا کہ تمام ثبوتوں اور ریکارڈ کی سافٹ کاپی عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جائے۔ اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا۔
پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت سے کہا کہ نیب کو مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے وقت دیا جائے۔ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے بعد ہی احکامات پر عمل ممکن ہوگا،چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے توقع ہے حکومت سوچ سمجھ کر تعیناتی کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، حکومت سے اچھی توقع ہے کہ صاف، ایماندار، قابل اور نیک نام شخص کو چیئرمین نیب لگایا جائے، بعد میں از خود نوٹس کی مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی گئی۔
Comments are closed.