خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی فاٹا کے صوبے میں انضمام کا بل منظور
فوٹو:فائل
پشاور(ویب ڈیسک) قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی نے بھی فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کا خصوصی اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی آئینی ترمیم منظور کر لی گئی۔ صوبائی وزیر قانون امتیاز شاہد قریشی نے فاٹا اصلاحاتی بل ایوان میں پیش کیا ۔
بل کے حق میں 85 اور مخالفت میں 6 ووٹ ڈالے گئے۔ ارکان اسمبلی بل کی منظوری کے حق میں کھڑے ہوگئے اور صرف جے یو آئی کے ارکان بیٹھے رہے جنہوں نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
اسمبلی میں مالاکنڈ کے ایم پی ایز نے پاٹا کی حیثیت ختم کرنے کا مسئلہ اٹھا دیا۔ رکن اسمبلی عنایت اللہ نے کہا کہ ہم سے پاٹا کی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
اسمبلی میں پاٹا کو 10 سال تک ٹیکسوں سے استثنیٰ دینےکی قرارداد منظور کرلی گئی۔ تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر حیدر علی نے قرارداد پیش کی جس میں مالاکنڈ میں نافذ شرعی نظام عدل کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ فاٹا کی طرح پاٹا کو بھی 100 ارب روپے سالانہ پیکج دیا جائے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ فاٹا کے انضمام کی مکمل حمایت کرتے ہیں، تاہم حکومت نے پاٹا کو صوبے میں ضم کرنے پر عوام سے مشاورت نہیں کی، حکومت پاٹا عوام کو خصوصی مراعات دیتے ہوئے مالاکنڈ کو ٹیکسوں میں دس سال کے لیے چھوٹ دی جائے، ایک کھرب پیکج کا اعلان کیا جائے اور بجلی میں سبسڈی دی جائے۔
اجلاس میں اے این پی کے سردار بابک نے کہا کہ مالاکنڈ کی حیثیت کو نہ چھیڑا جائے، خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے تو مالاکنڈ کے عوام فاٹا اصلاحات کی منظوری میں سب سے آگے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ نگراں وزیر اعلیٰ کا جو نام آیا ہے تو بڑے بڑے قصے آ رہے ہیں،
سیاست میں اب پیسہ آ گیا ہے، چاہئیے تھا کہ اپوزیشن لیڈر تمام اپوزیشن جماعتوں سے مشورہ کرتے، ہمیں تو یہ خبر ملی ہے کہ وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر نے پیسے لئے ہیں۔ نگراں وزیر اعلیٰ سے پیسے لینے کی بات پر ایوان میں شدید شور شرابا ہوا۔
وزیر اعلی پرویز خٹک نے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراعلی سے پیسے لینے کا الزام سن کر بہت افسوس ہوا، سینیٹ کا معاملہ آیا تو سب سامنے آجائے کیونکہ ثبوت ہیں، کوئی چیز چھپی نہیں میں جانتا ہوں کون کون ہے، بل میں پاٹا کی کوئی بات نہیں تھی اور اچانک یہ سامنے آیا، پاٹا کے معاملہ پر وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔
کے پی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمان نے کہا کہ میں نے تمام پارلیمانی جماعتوں سے رابطہ کیا اور نام مانگے تھے، افسوس ہوا سردار بابک نے سنی سنائی باتوں پر الزام لگایا، فاٹا میں 15سے 16 سال سے آپریشن چل رہا ہے، قبائل مشکل ادوار سے گزرے ہیں، فاٹا انضمام کی قانون سازی کے لیے باہر سے دباؤ ڈالا جارہا ہے، قبائلی عوام پر فیصلہ زبردستی لاگو نہ کیا جائے۔
صوبائی وزیر شاہ فرمان نے کہا کہ ایوان میں وہ بات کی جاتی ہے جو حقیقت پر مبنی ہو، کسی کے کہنے پر آپ کیسے الزامات لگا سکتے ہیں۔ شاہ فرمان نے بھی مجوزہ بل میں پاٹا کو شامل کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بل قبائل کیلئے تھا تاکہ فاٹا کے ارکان فاٹا کیلئے قانون سازی کر سکیں، لیکن پاٹا کو ساتھ شامل کرنا گہری سازش اور بل کو روکنے کی کوشش ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کا آج آئینی مدت پوری ہونے پر اختتامی اجلاس ہے۔ دوسری جانب فاٹا اصلاحاتی بل کے خلاف جے یوآئی کی جانب سے اسمبلی کے سامنے شدید احتجاج بھی کیا گیا جس کے دوران پولیس سے جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
فاٹا اصلاحات بل کے تحت آئین کی شق 246 میں ترمیم کرتے ہوئے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو خیبر پختونخوا جبکہ صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (پاٹا) کو متعلقہ صوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا حصہ بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ آئینی ترمیم کے ذریعے 100 برس سے زیادہ عرصے تک قبائلی علاقہ جات میں نافذ رہنے والے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کو بالاخر ایک صدی بعد ختم کر دیا گیا ہے۔
Comments are closed.