مقبوضہ کشمیر، آرٹیکل 370 کیا تھا ؟
اسلام آباد (زمینی حقائق )بھارت نے آج مقبوضہ کشمیر کو آئین میں دی گئی خصوصی حثیت ختم کر دی ہے، آرٹیکل 370کے تحت بھارت خود مختاری دینے کا پابند ہے۔
آرٹیکل 370 کیا تھا ؟
تقسیمِ برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے پہلے تو خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا تاہم بعدازاں مشروط طور پر انڈیا سے الحاق پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
اس صورتحال میں انڈیا کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔
تاہم ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جس پر سنہ 1951 میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔
انڈین آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ دراصل مرکز اور ریاستِ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا۔
یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔
آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔
اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت انڈین حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
آرٹیکل 35 اے کیا تھا؟
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تھی اور انھیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔
انڈیا کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔
اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔
اب اگر یہ آرٹیکل بحال نہ کیے گے توکسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔تاہم اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اب بھی کشمیریوں کو دیا گیا حق، حق خود اردیت موجود ہے جسے بھارت ختم نہیں کر سکتا۔
یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کر لیا گیا تھا۔
کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔
یہ خدشہ صرف کشمیر کے علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں بلکہ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاؤ میں پیش پیش رہے ہیں اور اب وہ بھی بھارتی اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
Comments are closed.