چیف جسٹس پر بھری عدالت میں عدم اعتماد،قاضی فائز خاتون ریکٹر کی بیماری پر برہم

{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":["local"],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":false,"containsFTESticker":false}
52 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر بھری عدالت میں عدم اعتماد،قاضی فائز خاتون ریکٹر کی بیماری پر برہم ،ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کے بیماری کو ڈرامہ قرار دے کر عدالت سے چلے جانے کا حکم دے دیا.

اس سے قبل چیف جسٹس اوروکیل اسلامک یونیورسٹی ریحان الدین گولڑہ میں تلخ کلامی ہوئی، وکیل نے کہا آپ یونیورسٹی بورڈ کے بھی ممبر ہیں آپ ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کا کیس کیسے سن سکتے ہیں؟

سپریم کورٹ میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے معاملے پر سماعت ہوئی، ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک وہیل چیئر پر عدالت میں پیش ہوئیں۔

سماعت کے دوران وکیل اسلامک یونیورسٹی نے کہا کہ چیف جسٹس نے الزام لگایا تھا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے، ڈاکٹر ثمینہ کی حالت دیکھ لیں میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہے؟

چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز میں نام مختلف ہوں گے تو شک ہی ہوگا، ہائر ایجوکیشن کمیشن کہتا ہے کہ ثمینہ ملک کو جب بھی میٹنگ کا کہیں تو یہ بیماری کا بہانہ بنالیتی ہیں۔

اس پر وکیل نے کہا کہ صرف ایک میٹنگ میں شرکت نہیں کی، دیگر میں آن لائن شرکت کی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایچ ای سی کا دفتر کسی دوسرے شہر میں نہیں ہے جو آن لائن شرکت کرتی تھیں، یونیورسٹی میں کتنی آسامیاں خالی ہیں اس کا جواب دیں۔

وکیل ریحان الدین گولڑہ نے کہا کہ آپ نے یونیورسٹی بورڈ اجلاس میں بطور رکن بھی یہ سوال پوچھا تھا، وہاں بھی جواب دیا تھا آج عدالت میں بھی وہی جواب دے دیتا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم خاموش ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بدتمیزی کریں، وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹرم سے ہٹایا جائے، چیف جسٹس کے حکم پر سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ثمینہ میڈیا کے قریب کیا کر رہی ہیں، انہیں یہاں بلائیں؟ پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ثمینہ ملک سے سوال کیا کہ آپ اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں؟

ریکٹر اسلامی یونیورسٹی نے کہا کہ میں دوائی کے اثر میں ہوں، کچھ وقت دیں، سوالات کے جواب دے دوں گی، چیف جسٹس جواب سن کر برہم ہوگئے اور کہا کہ آپ نے ڈرامہ کرنا ہے تو یہاں سے چلی جائیں۔

اس پر وکیل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کیا اور کہا کہ آپ نے بطور بورڈ رکن اجلاس میں یہ سارے سوالات پوچھے تھے آپ بورڈ کے رکن بھی ہیں اس لیے مناسب ہوگا یہ کیس آپ نہ سنیں۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق چیف جسٹس یا اس کا نمائندہ کئی جامعات کے بورڈ کا رکن ہوتا ہے، جب معلومات نہ دینی ہوں تو اعتراض کر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرے کسی اہلخانہ کی ڈگری کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اعتراض بجا ہوتا، آپ نے کرائے کے جو لوگ رکھے ہیں پروپیگنڈا کےلیے، آج اس کو بھی دیکھیں گے۔

چیف جسٹس کمرہ عدالت سے ثمینہ ملک کی روانگی کے ساتھ ہی صحافیوں کے بھی باہر جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کر دیں گے۔

چیف کا کہنا تھا کہ گالم کلوچ کرو تو سب ٹھیک ہے، سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے، میں نے صرف ایک سوموٹو نوٹس لیا تھا، وہ بھی کسی کے کہنے پر لیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہم پھر توہین عدالت کا نوٹس لے کر جیل بھیجنا شروع کر دیں؟ پوچھتا ہوں پورے پاکستان میں ایک ہی خاتون ملی ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو میڈیا پر ہائر کرکے گالم کلوچ شروع کر دی جائےگی، باہر کے ممالک بھی اسلامک یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں، اگر ریکٹر بیمار ہیں کام نہیں کر سکتیں تو عہدہ چھوڑ دیں، بعد سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی.

Comments are closed.