اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو شاید 9 مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا،چیف جسٹس
فائل:فوٹو
اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں، مارو، جلاوٴ گھیراوٴ کرو اور چلے جاوٴ یہ کیا طریقہ کار ہے؟ مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے، کہتے ہیں بس آگے بڑھو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟۔ اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو شاید 9 مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا۔
فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی، انکوائری کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی، دھرنے سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، کسی کو پروا ہی نہیں، آگ لگاوٴ، مارو یہ اب کچھ لوگوں کا حق بن گیا ہے، پاکستان بنا تھا بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنرل ر فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ رپورٹ کے ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں مالی معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، دوسرے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کی مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے، کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمہ دار نہیں پنجاب حکومت ذمہ دار ہے، کمیشن کہ رہا ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب حکومت رانا ثناء اللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیں، حلف کی خلاف ورزی کس نے کی یہ نہیں بتایا کمیشن نے، کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا، مجھے معلوم نہیں کمیشن کو کس بات کا خوف تھا؟ انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے، ساری رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف لکھ دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں، مارو، جلاوٴ گھیراوٴ کرو اور چلے جاوٴ یہ کیا طریقہ کار ہے؟ مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے، کہتے ہیں بس آگے بڑھو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟۔
اس کمیشن نے کسی چیز پر کوئی فائنڈنگ نہیں دی، آپ لوگوں کا تو کام تھا کہ ذمہ دار کا تعین کریں، انکوائری کمیشن نے پارلیمان اور عدالت کی پاور لی مگر جو کام کرنا تھا وہ نہیں کیا، جو کام تھا وہ نہیں کررہے بلکہ ادھر ادھر کی عجیب باتیں کر رہیہیں، کمیشن کہہ رہاہے جو کررہے ہیں وہ ذمہ دار نہیں پنجاب حکومت ذمہ دار ہے ماشا اللہ، پیمرا ویسے تو پھرتی میں ہوتا ہے یہاں انھیں کچھ نظر نہیں آیا۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے کہاکہ کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کرلیں، بہت شکریہ، یہ کہنے کیلئے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن نے لکھا نظرثانی درخواستیں اتفاق سے سب نے دائر کیں اور اپنی وجوہات پر واپس لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماشا اللہ، یہ کمیشن والے لوگ پتا نہیں پولیس میں کیسے رہے، یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا کہ تو نے چوری تو نہیں کی، درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے، کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظرثانی درخواستیں ایک ساتھ دائر ہوئیں، کسی نے نظرثانی کی منظوری دی ہوگی وکیل کیا ہوگا سارا ریکارڈ کہاں ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ٹی ایل پی کے کسی بندے کا بیان نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟ شاید ٹی ایل پی والے ہی کمیشن کی معاونت کر دیتے، ٹی ایل پی کو بلاتے ہوئے شاید انہیں ڈر لگ رہا تھا، جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا موقف لے لیتے، رانا ثنا اللہ کا لکھ دیا کہ وہ پنجاب حکومت کی کمیٹی کے سربراہ تھے اور کچھ نہیں کیا، شاید انکوائری کمیشن کو رانا ثنا اللہ سے کوئی مسئلہ تھا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پْرامن مظاہرین نہیں تھے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہاکہ ناشتہ اور کھانے پہنچانے والوں کے تو بیان ریکارڈ ہوئے مگر ٹی ایل پی کے نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کھانا کھلانا تو کوئی جرم نہیں ہے۔
Comments are closed.