کشید گی کے خاتمہ کی کوشش کو کمزوری نہ سمجھائے، وزیراعظم

اسلام آباد( زمینی حقائق )وزیراعظم عمران خان نے واضح کیاہے کہ ہماری طرف سے کشید گی کم کرنے کی کوشش کو ہماری کمزوری نہ سمجھاجائے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’اپوزیشن کا شکر گزار ہوں اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کو بیرونی خطرات ہیں تو ہماری قوم متحد ہے‘۔

انہوں نے کہ ’26 جولائی کو جب وزیراعظم نہیں بنا تھا تب ہی بیان دیا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم ہماری طرف بڑھائے گا تو ہم دو بڑھائیں گے۔

وجہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ غربت برصغیر میں ہے اور یہ میرا وڑن ہے کہ کبھی بھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جہاں تھوڑے لوگ امیر باقی غریبوں کا سمندر ہوں‘۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’برصغیر کا آگے بڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ امن ہو اور جو بھی مسئلے ہوں وہ بات چیت کے ذریعے حل ہوں، 26 جولائی کی پیشکش کے بعد مودی کو خط بھی لکھا جس میں اقوام متحدہ میں وزرائے خارجہ کی ملاقات کی تجویز دی لیکن اس پر جواب اچھا نہیں آیا۔

عمران خان نے کہا ہم نے دیکھا یہ رد عمل بھارت میں الیکشن کی وجہ سے ہے، ہم نے دیکھا کہ بھارت کی الیکشن کمپین میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات شامل نہیں، اس سوچا کہ الیکشن کے بعد بات آگے بڑھائیں گے‘۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ’کرتارپور راہداری بات چیت بڑھانے کی ایک کوشش تھی تاکہ بات چیت سے مسئلے حل ہوں اور کشیدگی کم ہو، بدقسسمتی سے پھر بھی دیکھا کہ یہ آگے نہیں بڑھیں گے۔

ہمیں خوف تھا کہ الیکشن سے پہلے کوئی نہ کوئی واقعہ ہوگا جس کو بھارت میں الیکشن کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اتنے میں پلواما کا واقعہ ہوگیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ نہیں کہتا کہ پلوامہ واقعے میں بھارت کا اپنا ہاتھ تھا لیکن واقعے کے آدھے گھنٹے بعد ہی پاکستان پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں، وہ ٹائمنگ کیسی تھی، اس وقت سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر تھے تو کون سا ملک ہوگا جو حملہ کرکے اتنے اہم موقع کو خود سبوتاژ کرے۔

وزیراعظم نے کہا ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اس سے ہمیں کیا ملتا، اس لیے فوری طور پر بھارت سے کہا کہ ہمیں ٹھوس انٹیلی جنس ثبوت دیں ہم کارروائی کریں گے‘۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے بھارت کی طرف سے ثبوت کے بجائے ایک جنگی ماحول بڑھتا گیا، شک تھا کہ اس جنگی ماحول میں پاکستان میں کچھ ہوگا اس لیے پیغام دیا کہ اگر آپ جارحیت کریں گے تو ہم اس کا جواب دیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ’بھارت سے بار بار کہا کہ ٹھوس ثبوت دیں تو آج بھارت نے ڈوزیئر بھیجا ہے اور دو دن پہلے ہم پر جارحیت کی، عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی، اگر یہ ڈوزیئر پہلے دیتے تو حملہ نہ ہوتا اور نہ ہم ایکشن لیتے، ہمیں لگا کہ بھارت میں الیکشن کی وجہ سے ان کی مجبوری ہے کہ جنگی ماحول بنایا جائے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’رات ساڑھے تین بجے بھارت کے حملے کا پتا چلا جس کے بعد تینوں مسلح افواج کے سربراہان سے بات چیت ہوئی کہ حملے کے نتیجے میں جانی نقصان کا علم نہیں تھا اس لیے فیصلہ کیا کہ ہم کچھ نہیں کریں گے۔

اگر جانی نقصان نہیں ہوا ہے اور ہم حملہ کریں گے تو یہ غیر ذمہ داری ہوگی، ہم نے ذمے دار ریاست بن کر کوئی ایکشن نہیں لیا، اگلے دن صرف یہ اہلیت دکھانے کے لیے ایکشن لیا کہ آپ کریں گے تو ہم بھی جواب دینے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہمارے ایکشن میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن جب ہمارے جہاز واپس آرہے تھے تو بھارتی جہازوں نے پکڑنے کی کوشش کی جس میں دو بھارتی جہاز گرے‘۔

عمران خان نے بتایا کہ ’ اس صورتحال میں کل شام کو مودی کو کال کرنے کی کوشش کی کیونکہ ہم واضح کرنا چاہتے تھے ہم بڑھاوا نہیں چاہتے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں کوئی خوف یا ڈر ہے۔
عمران خان نے کہا ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف لڑی ہے، یہ ایک تجربہ کار اور مقابلہ کرنے والی فوج ہے‘۔

وزیراعظم نے کہایہ سب مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہے، بھارت کی عوام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ کشمیر کے لوگوں پر جو ان چار سالوں میں تشدد ہوا اس حکمت عملی اور ظلم سے کیا کشمیر کے لوگوں کو اپنا کرلیں گے؟

کشمیریوں پر جتنے ظلم ہورہے ہیں یہ تحریک بڑھتی جارہی ہے، 20 سال پہلے علیحدگی نہ چاہنے والے کشمیری رہنما اب بھارت کی پالیسی کو قبول نہیں کررہے، اب وہ آزادی کے علاوہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں‘۔

وزیراعظم کا کہنا تھاکہ بھارت کو سوچنا چاہیے کہ اس حکمت عملی سے نتیجہ نہیں آیا، بھارت کے اندر اس وقت ایک بحث کی ضرورت ہے کہ کشمیر پر آگے کیا کرنا ہے، اگر اس طرح چلتا گیا تو ڈر ہے کشمیر میں رد عمل آئے گا اور وہاں دہشت گردی ہوگی، اس کے بعد بھی کیا بھارتی ہم پر انگلی اٹھائیں گے، اسی طرح ہمیں بغیر ثبوت کے ایکشن کا کہا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارتیوں کو جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ بھارت میں لوگ کشمیر پر اپنی حکومت کی حکمت عملی سے متفق نہیں، موجودہ حکوت جو جنگجوئی کررہی ہے وہاں کی اکثریت اس سے متفق نہیں، لوگ ڈرتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا ان کے میڈیا کا اٹیک ہے، کاش ان کے میڈیا نے وہ دیکھا ہوتا جو ہمارے میڈیا نے پچھلے 12 سال دیکھا، ہمارے 70 ہزار لوگ مرے اور ہزاروں معذور ہوئے، اس ذمہ داری پر پاکستانی میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘۔

وزیراعظم نے مزیدکہا کہ ‘جنگ میں کوئی نہیں جیتتا، جن ملکوں کے پاس جوہری ہتھیار ہوں وہاں کسی کو جنگ کا سوچنا بھی نہیں چاہیے، مجھے خوف ہے کہ یہاں بھی غلط اندازے نہ لگ جائیں، دنیا کی تاریخ میں غلط اندازوں سے ملک تباہ ہوئے، جنگ مسئلوں کا حل نہیں، اگر بھارت اب کوئی ایکشن لے گا تو مجبوری ہے ایکشن لینا پڑے گا تو بات پھر کہاں جائے گی؟

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان امن چاہتا ہے، پاکستان آج جہاں کھڑا ہے ہمارا مفاد صرف استحکام ہے تاکہ جو ہمارا اصل کام ہے ہم لوگوں کو غربت سے نکال سکیں، یہ کشیدگی پاکستان اور بھارت دونوں کو فائدہ نہیں دیتی۔

انہوں نے کہاکہ ’اگر کسی بھی ملک کو اس اسٹیج پر دھکیلیں گے تو ایک غیرت مند قوم آزادی کے لیے لڑے گی وہ غلامی قبول نہیں کریگی لہٰذا بھارت کو اور مودی کو پیغام دیتا ہوں کسی کو اس جگہ نہ دھکیلیں، مجھے پتا ہے کہ ہماری تیاری ہے، مجھے پتا ہے ہماری فوج کہاں کھڑی ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ ’بھارت کو کہتا ہوں کہ اسے آگے نہ لے کر جائیں پھر آپ جو بھی کریں گے پاکستان جواب دینے پر مجبور ہوگا، جوہری ہتھیار رکھنے والے دو ملکوں کو ایسے سوچنا بھی نہیں چاہیے‘۔

عمران خان نے اپنے خطاب میں بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان کا بھی ذکر کیا اور پھر ٹیپو سلطان کی بہادری کا حوالہ دے کر انھیں اپنا ہیرو قرار دیا۔

وزیراعظم نے امن اور جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کے گرفتار پائلٹ کی رہائی کا بھی اعلان کیا۔

Comments are closed.