نواز شریف اور ریڈلسٹ پر وزیر داخلہ کی برطانوی سفیر سے گفتگو


اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)سابق وزیراعظم نواز شریف کو واپس وطن لانے کیلئے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے برطانوی سفیر سے ملاقات کی اور انھیں دونوں ممالک میں مجرمان کی حوالگی اور وطن واپسی کے معاہدوں پر بات کی جس پر فریقین میں اتفاق رائے پایا گیا۔

برطانوی سفیرکرسچن ٹرنر سے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی ممکنہ واپسی اور پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیاگیا۔

شیخ رشید نے کرسچن ٹرنر سے ملاقات میں پاک برطانیہ تعلقات بات چیت کی اور، ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ کی وفات پر افسوس کااظہار کیا،ملاقات میں سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر بھی موجود تھے، مجرمان کی حوالگی سے متعلق معاہدوں پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔

وزارت داخلہ سے جاری اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ ملاقات میں وزیر داخلہ اور برطانوی سفیر کی ملاقات میں مجرمان کی حوالگی اور وطن واپسی کے معاہدوں کو جلد مکمل کرنے پر اتفاق کیا گیا،سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان ممکنہ واپسی پر بھی بات چیت بھی کی گئی۔

وزیر داخلہ اور برطانوی سفیر نے دوران گفتگو اتفاق کیا کہ مجرمان کی حوالگی اور وطن واپسی سے متعلق معاہدے دونوں ہی ممالک کے باہمی مفاد میں ہیں، اس موقع پر اتفاق رائے پایا گیا کہ معاہدوں پر پیشرفت کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

برطانوی سفیر نے پاکستان کی ایف اے ٹی ایف روڑ میپ پر علمدرآمد کی کارکردگی کو بہت شاندار قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے پر برطانیہ پاکستان کی مکمل حمایت کرے گا،شیخ رشید نے کہا کہ پاکستان لندن اور اسلام آباد کے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کورونا کی وجہ سے برطانوی ریڈ لسٹ میں ڈالنے پر تشویش ہے، اس اقدام سے برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں میں اضطراب پایا جاتا ہے، دیگر ممالک میں کورونا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالنا امتیازی سلوک ہے۔

اعلامیہ کے مطابق کرسچن ٹرنر نے کہا کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ امتیازی نہیں، حالات کے مطابق ہے، یہاں سے لندن جانے والے مسافروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے برطانیہ مسافروں میں کورونا کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے، کورونا کیسز کی شرح زیادہ ہونے کے باعث پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالا گیا۔

Comments are closed.