نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کی نظرثانی درخواستوں پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کی ضمانت میں توسیع کی جائے تاکہ وہ اپنا مکمل علاج کراسکیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے ضمانت دی تھی، اس وقت عدالت نےایک بات کی تھی کہ ضمانت کے لئے ہائیکورٹ سے رجوع کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا دیکھتے ہیں کہ ہمارے آرڈر پر نظر ثانی بنتی بھی ہے کہ نہیں، ہمارے پاس نظر ثانی کی درخواست ہے آپ اس پر دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے کہا یہ پیکج کا حصہ تھا کہ آپ چھ ہفتے بعد ضمانت میں توسیع کی درخواست دے سکیں گے جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا فیصلہ خود کہتا ہے گرفتاری دیے بغیر ضمانت میں توسیع کی درخواست نہیں دی جاسکتی، عدالت نے جو فیصلہ زبانی سنایا اس میں تبدیلی فریقین کو سنے بغیر نہیں ہوسکتی۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا قانون اس کے برعکس ہے، دستخط سے قبل عدالت تحریری فیصلے کو بھی بدل سکتی ہے، فیصلے سے قبل جو کچھ کہا گیا وہ فیصلہ نہیں عدالتی آبزرویشن تھی، 6 ہفتوں کے بعد آپ کے لیے تمام آپشن موجود ہیں۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا آپ کے فیصلے کے مطابق نوازشریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے گرفتاری دینا لازمی ہے؟، یہ فیصلہ درست نہیں کہ 6 ہفتوں کے بعد جو بھی طبی صورتحال ہو گرفتاری دینا ضروری ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ وہ پورا پیکج ہے جو آپ کو ملا ہے۔

سابق وزیراعظم کے وکیل نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ دلائل دیے،
اس کے بعد ججز نے کچھ دیر مشاورت کی اور چیف جسٹس نے ’ڈسمس‘ کہہ کر درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو چھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہائی ملی تھی، جس کی مدت 7 مئی کو ختم ہورہی ہے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو  7 سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے بعد وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹ رہے تھے، جنہیں بعدازاں طبی بنیادوں پر سپریم کورٹ نے 6 ہفتوں کیلئے ضمانت دی تھی۔

Comments are closed.