علامہ ضمیر اختر نقوی انتقال کرگئے،کب ؟ کہاں؟ کیسے جئے؟

ویب ڈیسک

کراچی:آج کراچی میں معروف عالمِ دین علامہ ضمیر اختر نقوی حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث انتقال کر گئے جس کے ساتھ ہی شاعری و خطابت کے ایک دور کا اختتام ہوگیا ہے۔۔انسانی نفسیات کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص ہمارے درمیان زندہ ہوتا ہے، ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ اِس دارِ فانی سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کی خوبیاں واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔

مشہور و معروف اسکالر علامہ ضمیر نقوی 24 مارچ 1944ء کو بھارتی شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے جو تقسیمِ ہند سے قبل برطانوی ہندوستان کہا جاسکتا ہے۔ آپ کے والد سیّد ظہیر حسن نقوی اور والدہ سیدہ محسنہ ظہیر نقوی تھیں۔
سن 1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تو علامہ ضمیر اختر نقوی صرف 3 برس کے تھے۔آبائی شہر لکھنؤ سے ہی علامہ ضمیر ختر نقوی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن بھی شیعہ کالج لکھنؤ سے مکمل کی۔ سن 1967ء میں آپ پاکستان آ گئے اور رہائش کیلئے کراچی کا انتخاب کی جہاں دینی درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔

ایک شیعہ عالمِ دین کی حیثیت سے مرثیہ نگاری سے علامہ ضمیر اختر نقوی کو بے حد دلچسپی تھی۔ آپ نے مرثیہ نگاری کی تاریخ اور اردو زبان کے مشہور مرثیہ نویس میر انیس، مرزا دبیر اور جوش ملیح آبادی پر بھی کتابیں تحریر کی ہیں۔
اردو ادب پر واقعہ کربلا کے اثرات، تذکرہ شعرائے لکھنؤ، اقبال کا فلسہ عشق اور شعرائے مصطفیٰ آباد آپ کی اہم کتب ہیں۔ نثر نگاری اور ادبی تنقید بھی علامہ ضمیر اختر نقوی کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ آپ نے عمران سیریز کے ناول نگار ابنِ صفی کی ناول نگاری پر بھی ایک کتاب تحریر کی۔

دو جلدوں پر مشتمل نوادراتِ مرثیہ نگاری علامہ ضمیر اختر نقوی کی اہم کتب میں سے ایک ہے جبکہ مذہبی اعتبار سے آپ نے حضرت فاطمہ الزہراء، ام المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ،عباس علمداراور دیگر اہم اسلامی شخصیات کی سوانحِ حیات بھی تحریر کی ہیں۔

Comments are closed.