اگرجنرل پرویز مشرف مقدمہ لڑتے


شمشاد مانگٹ

عدالت عظمٰی نے سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کو آخری موقع دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ اگر 2 مئی کو وہ پیش نہ ہوئے تو عدالت یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ فاضل عدالت کے روبرو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین سے انحراف کا مقدمہ جسے سنگین غداری کا مقدمہ بھی کہا جا رہا ہے زیر سماعت ہے ۔

سابق صدر پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ ہوئے 12 سال گزر چکے ہیں۔ جبکہ ان کا اقتدار تقریباً 8 سال پر محیط تھا ۔ سابق صدر پرویز مشرف اپنے اقتدار کے دنوں میں جس قدر بہادر اور نڈر نظر آتے تھے اقتدار کے بعد وہ تقریباً حوصلہ چھوڑ چکے ہیں ۔

سابق صدر پرویز مشرف اگر پاکستان میں رہ کر اپنا مقدمہ لڑتے تو ان کا کیس کمزور نہیں تھا بلکہ سابق صدر یا تو باعزت بری قرار پاتے اور یا پھر اپنے ساتھ ساتھ کئی معتبر شخصیات کو بھی لے ڈوبتے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے بیرون ملک بیٹھنےسے یہ تاثر پےدا ہوا ہے کہ انہوں نے واقعی آئین توڑا تھا جبکہ عدالتوں کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کے لئے ان کے پاس بہت زیادہ مواد تھا ۔

سابق صدر پرویز مشرف کے پاس ایک جاندار موقف تو یہ بھی تھا کہ آئین سے انحراف انہوں نے نہیں بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے محو پرواز آرمی چیف کو برطرف کر کے کیا تھا ۔ پاکستان کا آئین کیا اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وزیر اعظم اپنے سپہ سالار کو عین اس وقت برطرف کر دے جبکہ وہ بیرونی دورے سے واپسی پر اپنے طیارے میں پرواز کر رہا ہو؟

مزید برآں کیا آئین پاکستان اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ منتخب وزیر اعظم ملک کے سپہ سالار کے طیارے کو اپنی ہی دھرتی پر اترنے کی اجازت نہ دے ؟ اور آئین پاکستان میں کہاں لکھا ہے کہ منتخب وزیر اعظم اختلاف رائے رکھنے والے آرمی چیف کو برطرف کر کے اپنے رشتہ دار کو اس اہم ترین عہدے پر بٹھا دے ؟

جب یہ سب کچھ ہو چکا تو برطرف آرمی چیف پرویز مشرف کے ساتھیوں نے ردعمل کے طور پر زمینی کنٹرول سنبھال کر نہ صرف اپنے سپہ سالار کا طیارہ بحفاظت زمین پر اتارا بلکہ وزیر اعظم اور اس کی حکومت کو بھی برطرف کر دیا ۔ بنیادی آئینی تنازعہ اس منظر کے گرد ہی گھومتا ہے ۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکلاءاس نکتے پر اچھا خاصا ٹف ٹائم دے سکتے تھے ۔ مزید برآں اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچ جاتی کہ سابق صدر پرویز مشرف نے ہی آئین توڑ کر آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی ہے تو پھر پرویز مشرف کے وکلاءمعاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے ان فاضل جج صاحبان کو بھی غدار کے ساتھی قرار دلوانے کی کوشش کرتے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دیتے ہوئے انہیں آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دی تھی ۔

اس کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر چیف جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کو بھی کٹہرے میں لایا جاتا جنہوں نے سابق صدر کے لئے عوامی ریفرنڈم کو قانون کی چھتری فراہم کی تھی ۔ اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ ”ملزمان “ کا ایک قافلہ تیار ہو جاتا ۔ علاوہ ازیں سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاءمیاں نواز شریف اور ان کے پورے خاندان کو ماورائے عدالت معاہدے کے تحت بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر بھی تابڑ توڑ قانونی حملے کر سکتے تھے۔

اگر سابق صدر کو مجرم قرار دیا جاتا ہے تو پھر یہ ماورائے عدالت معاہدہ بھی غیر قانونی قرار پانا چاہئے اور سہولت لینے والوں کو بھی عدالت سزا سنائے ۔ فاضل عدالت جنرل پرویز مشرف کے دیئے گئے این آر او کو پہلے ہی غیر آئینی قرار دے چکی ہے بالکل اسی طرز پر شریف برادران کو دی گئی سہولت بھی غیر آئینی قرار دی جانی چاہئے ۔

یہ کیسی عجب بات ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے خود کا تحفظ کرنے کے لئے جو قدم اٹھایا وہ سنگین غداری ہو گا اور اس اقدام کے بعد عدالتوں کی اجازت کے بغیر سزا یافتہ ” گھرانہ “ بیرون ملک بھیج دیا گیا وہ آئینی ہو گا؟

جنرل پرویز مشرف اگر میدان میں کھڑے رہتے اور عدالتوں کو بتاتے کہ 12 اکتوبر 1999 ءکے اقدام کے بعد 2003 ءکے عام انتخابات میں پارلیمنٹ بھی بنی تھی اور اس پارلیمنٹ نے انہیں صدر پاکستان منتخب کیا تھا لہٰذا اگر وہ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے تھے تو 2003 ءکی پوری پارلیمنٹ اور تین سابق وزراءاعظم ، میرظفر اﷲ جمالی ، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز نے بھی اس میں بھرپور معاونت کی تھی جبکہ چیئرمین سینٹ محمدمیاں سومرو بھی اس ”واردات “ کا حصہ تھے ۔

سابق صدر نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اپنے مداحوں اور خیر خواہوں کو بہت مایوس کیا جو انہیں بہت دلیر اور بہادر سمجھتے تھے ۔ موت کا ایک وقت مقرر ہے وہ دوبئی میں بھی ٹل نہیں سکتی اور پاکستان میں بھی اس کی پہنچ اسی طرح سے ہے ۔ بیماری کے باوجود سابق صدر پرویز مشرف کو ایک بہادر کمانڈر کے طور پر عدالتوں میں پیش ہونا چاہئے تھا ۔

سابق صدر پرویز مشرف اگر اپنا مقدمہ لڑتے تو قانون سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ایک بہترین مقدمہ ہوتا اور اگر بالفرض سابق صدر پرویز مشرف کو قصور وار ہی سمجھا جاتا تو ان کے ساتھ جیل جانے والے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی اور سابق صدر پرویز مشرف پھر یہ شعر کہہ سکتے تھے ۔

” اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا “

لیکن وہ دوبئی کے لگثرری فلیٹ میں پڑے پڑے خود ہی اکیلے ہو گئے ۔پاکستان میں رہ کر وہ مقدمہ لڑتے تو ان کی بیماری بھی اس قدر حملہ آور نہ ہوتی ۔

Comments are closed.