اعظم سواتی کے بیان پرملازمین کا احتجاج، معافی مانگنے کا مطالبہ

اسلام آباد (سید عمر گردیزی) آل پاکستان پینشنرز ایسوسی ایشن کا وزیر ریلوے اعظم خان سواتی کے ریلوے ملازمین و پینشنرزکیخلاف بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور پینشنرز ایسوسی ایشن نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج بھر پور احتجاج کیا ہے.

احتجاج میں آل پاکستان پینشنرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل میجر (ر) نعیم الدین خالد نے خصوصی طور پر احتجاج میں شرکت اور قیادت کی، وائس چیئرمین رانا اسلم، سیکریٹری فنانس رانا صفدر اقبال، چیف کو آرڈینیٹر مصطفی خان، سیکریٹری نشر و اشاعت توقیر ہاشمی سمیت دیگر مظاہرین نے شرکت کی۔

کورونا وائرس کے پیش نظر ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے اور انتظامیہ کیساتھ تعاون یقینی بناتے ہوئے احتجاج میں سوشل ڈیسٹنس کو یقینی بنایا گیا۔ میڈیا نمائندگان سے بات چیت کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل میجر (ر) نعیم الدین خالد و دیگر مظاہرین کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی کے بیان سے ریلوے ملازمین کے جذبات مجروع ہوئے.

انھوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر ریلوے اعظم سواتی اپنے تضحیک آمیز رویہ اور بیان پر ملازمین و پینشنرزسے معافی مانگیں،
ریلوے خسارے کا ذمہ دار غریب ملازمین نہیں بلکہ با اثر طبقہ ہے، سابقہ اور موجودہ حکومتیں ہیں۔ اعظم سواتی فوری معافی نہ مانگی تو احتجاج کا دائرہ کار مزید بڑھا دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی وزراء اپنی غلطیوں کا غصہ ملازمین پر مت نکالیں۔ ہمارے مطالبات کے حل تک ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ سرکاری ملازمین کی طرح پینشنرز کی پنشنوں میں بھی 25 فیصد اضافہ کیا جائے تاکہ غریب کے گھر کا چولہا نہ بھجے۔

ان کا کہنا تھا کہ پینشنرز سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں ہیں بلکہ حکومت پینشنرز کی قرض دار ہے۔ مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ احتجاجی سرکاری ملازمین سے مذاکرات کرنے والی وفاقی وزراء کی کمیٹی کا فرض بنتا تھا کہ انہوں نے سرکاری ملازمین کے لیے یکم مارچ سے 25%اضافے (خصوصی الاؤنس) کا اعلان کیا تو ریٹائرڈ سرکاری ملازمین یا پنشنر زکے لیے بھی اتنے ہی اضافے یا اس سے کچھ کم اضافے کا ضرور اعلان کرتے۔

احتجاج میں شامل سرکاری ملازمین کے نمائندوں کو بھی اپنے مطالبات پیش کرتے اور منواتے ہوئے ریٹائر سرکاری ملازمین یا پنشنر ز کو نہیں بھولنا چاہیے تھا۔آخر آج کے بر سر روزگار یہ سرکاری ملازمین ریٹائر ہونے کے بعد پنشنر زکے طبقے میں ہی شامل ہونگے۔ بلاشبہ ریٹائر سرکاری ملازمین یا پنشنرز کو نظر انداز کرنے کو انتہائی ستم ظریفی ہی کہا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ سرکاری ملازمین کو کوئی مالی منفعت، کوئی ریلیف، کوئی اضافہ یا کوئی ایڈہاک ریلیف دی گئی ہو اور ریٹائر سرکاری ملازمین یا پنشنرز اس سے محروم رکھے گئے ہوں۔ کیا یہ بات اہم نہیں ہے اور قومی زندگی کے تمام طبقات بالخصوص مقتدر حلقوں یا حکمرانوں کے لیے قابل غور نہیں ہے کہ وہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین یا پنشنر ز جن کا شمار بزرگ شہریوں (سینیئر سیٹی زن) میں ہوتا ہے کی بہبود اور ویلفیئر کا بطور خاص خیال رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بزرگ شہری یا پنشنر یقینا کئی طرح کے مسائل و مشکلات کا شکار ہیں جن میں مالی مسائل اور مشکلات سر فہرست ہی نہیں ہیں بلکہ مہنگائی کے اس بدترین دورمیں ان میں انتہائی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس صورت میں مقتدر اداروں اور برسر اقتدار طبقے کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ دے کر بزرگ شہریوں یا پنشنر زکو ان مسائل اور مشکلات سے نجات دلائیں.

انھوں نے سوال کیا کہ کیا ہمارے دین کی تعلیمات بھی اس امر کا تقاضا نہیں کرتی ہیں کہ بزرگوں اور بڑوں کے ادب اور احترام کو یقینی بنانے کے ساتھ ان کے مسائل اور مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

Comments are closed.