ممنوعہ فنڈنگ کیس ، ایف آئی اے کو پی ٹی آئی ارکان کے خلاف کارروائی سے روکنے کی زبانی استدعا مسترد

فائل:فوٹو

اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ایف آئی اے کو پی ٹی آئی ارکان کے خلاف کارروائی سے روکنے کی زبانی استدعا مسترد کر دی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے الیکشن کمیشن نے یہ کہا ہے آپ نے غیرملکیوں سے فنڈز لیے، ایک بات تو طے ہے،الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈزضبط کرسکتا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے الیکشن کمیشن نے کہیں نہیں لکھا پی ٹی آئی ملکی سالمیت کیخلاف ہے

چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔

انور منصور نے تحریری دلائل جمع کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سیاسی جماعتوں کو ملنے والے فنڈزکی اسکروٹنی کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس انکوائری کا اسکوپ محدود ہے جس سے باہرنہیں جاسکتا۔ پی ٹی آئی کو فارن فنڈذ پارٹی ڈکلیئرکرنا بھی الیکشن کمیشن کا اختیارنہیں تھا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کا نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ اگر پارٹی کو عطیات میں ملنے والی رقم ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوتواسے ضبط کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا یعنی اگر ایسی کسی رقم کا پتہ چلے تو اسے قومی خزانے میں جمع کرایا جائیگا۔ بیرسٹر انور منصور نے کہا الیکشن کمیشن نے آگے معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا لکھا۔ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر 185 کیسز بنائے گئے ہیں اور ایف آئی اے کارروائی کر رہا ہے، اسے روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شوکازنوٹس بھی جاری کررکھا ہے جس میں آج پیش ہوا۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ اور فارن فنڈڈ پارٹی میں فرق ہے، ملکی سالمیت کیخلاف غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والی جماعت کو ہی کالعدم کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجنے کے لیے ملکی سالمیت کیخلاف کام کرنا ثابت ہونا لازم ہے۔

عدالت نے کہا ابھی آپ کے خلاف تو ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ ابھی تک وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کیخلاف کوئی ریفرنس نہیں بھیجا۔ اگرحکومت بھیجنا چاہے تو اس کا ایک الگ مکینزم ہے۔ ریفرنس جائے تو وہاں آپ کو بھی موقع ملنا ہے۔ ابھی تو آپ کو صرف شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے جس کے جواب میں آپ اپنی ہرطرح کی وضاحت دے سکتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا آپ شوکازکے جواب میں الیکشن کمیشن کو سب کیوں نہیں بتا دیتے؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا ہم نے ایک ابتدائی جواب جمع کروایا اور کہا ہے کہ نوٹس الیکشن کمیشن سے جاری ہی نہیں ہوا۔ نوٹس ڈی جی لاء کی جانب سے جاری کیا گیا۔

انور منصور خان نے کہا کہ انہیں دلائل کے لیے مزید ایک ہفتے کا وقت چاہئے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کے بعد الیکشن کمیشن کو بھی سننا ہے،پھرتویہ کیس جون جولائی تک چلا جائیگا۔ ہم چاہتے ہیں آپ دلائل مکمل کریں اور جلد فیصلہ ہو اسی لیے تحریری دلائل مانگے گئے تھے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

Comments are closed.