بھارتی نژاد رشی سونک کے برطانیہ کا نیا وزیراعظم بننے کے امکانات روشن

فائل:فوٹو

لندن:بورس جانسن کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے مقابلے سے باہر ہونے کے بعد بھارتی نژاد رشی سونک کے برطانیہ کا نیا وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں جب کہ پینی مورڈانٹ کو 100 ارکان کی حمایت ثابت کرنا ہے بصورت دیگر رشی سونک بلامقابلہ منتخب ہوجائیں گے۔

برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے لیے نئے امیدوار کی نامزدگی کے لیے گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے جاری تگ و دو بورس جانسن کی جانب سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے اعلان پر اختتام پذیر ہوگئی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کنزرویٹو کی جانب سے سابق وزیراعظم بورس جانسن اور سابق وزیر داخلہ بھارتی نژاد رشی سونک نے حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

پارٹی رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کی طویل مشاورت کے بعد بورس جانسن نے دوڑ سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح وقت نہیں ہے۔ آپ اس وقت تک حکومت نہیں کرسکتے جب تک پارلیمنٹ میں پارٹی کی مکمل حمایت ساتھ نہ ہو۔

بورس جانسن کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے مقابلے سے باہر ہونے کے بعد بھارتی نژاد رشی سونک کے برطانیہ کا نیا وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں جب کہ پینی مورڈانٹ کو 100 ارکان کی حمایت ثابت کرنا ہے بصورت دیگر رشی سونک بلامقابلہ منتخب ہوجائیں گے۔

خاتون امیدوار پینی مورڈانٹ نے 100 ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے تاہم ا?زاد ذرائع کے مطابق انھیں محض 24 سے 30 ارکان کی حمایت حاصل ہے جب کہ رشی سونک کی حمایت میں 140 اور بورس جانسن کی حمایت میں 57 ارکان ہیں۔

رشی سونک کی حمایت کرنے والوں میں سابق ہوم سیکریٹری ساجد جاوید، ڈومینک راب اور سابق سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک شامل ہیں جب کہ وزیر داخلہ پریتی پٹیل، خارجہ سکریٹری جیمز کلیورلی اور کابینہ کے وزیر ندیم زہاوی نے بورس جانسن کی حمایت کی تھی۔

بورس جانسن کی حمایت کرنے والے اب اگر پینی مورڈانٹ کی حمایت کرتے ہیں تو مقابلہ دلچسپ ہوجائے گا اور رشی سونک کو جیت کے لیے کافی محنت کرنا ہوگی البتہ یہ ارکان بورس جانسن سے رشی سونک کے کیمپ میں گئے تو بھارتی نڑاد سابق برطانوی وزیر خزانہ با آسانی وزیراعظم بن جائیں گے۔

خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بورس جانسن نے دستبردار ہونے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا ہے کہ اب بھی پارٹی گیٹ کی تلوار ان کے سر پر لٹکی ہوئی ہے اور کنزرویٹو فی الحال کوئی اور تنازع مول لینا نہیں چاہتے۔

دوسری جانب حزب اختلاف یعنی لیبر پارٹی نے وزیراعظم کے عہدے کے انتخاب کے لیے حکمراں جماعت کے تین امیدواروں کے میدان میں آنے اور اپنے ہی ارکان کی حمایت کے متضاد دعوؤں کو ” ایک مضحکہ خیز اور افراتفری کا سرکس“ قرار دیا۔

خیال رہے کہ عوامی سروے میں بھی اکثریت کی رائے رشی سونک کے حق میں ہے جب کہ 27 فیصد بورس جانسن کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔

Comments are closed.