علی وزیر کا معاملہ بھی حل کردیں اس کے لئے کوئی نہیں بولتا،چیف جسٹس
فائل:فوٹو
اسلام آباد:چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے سابق اسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماوٴں کے خلاف کیسز کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ نئے رولز کے مطابق کسی بھی پارلیمنٹرین کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک اسپیکر کی منظوری نہیں ہو گی علی وزیر کے لئے کوئی نہیں بولتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسد قیصر سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماوٴں کے خلاف کیسز سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک اوپن ایف آئی آر درج ہوئی جس میں پی ٹی آئی قیادت لکھ کر ایف آئی آر میں سب کو شامل کر لیا گیا۔
عدالت نے دو ہفتوں میں ملک بھر کے تھانوں میں پٹیشنرز کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ حلقے کے عوام کی نمائندگی کے لیے اب کسی پارلیمنٹرین چاہے گرفتار ہی کیوں نا ہو اسمبلی اجلاس شرکت سے نہیں روکا جاسکتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نئے رولز کے مطابق کسی بھی پارلیمنٹرین کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک اسپیکر کی منظوری نہیں ہو گی ، آپ کا معاملہ تو حل ہوگیا تو علی وزیر کا بھی حل کردیں ، علی وزیر کے لیے نا کوئی یہ بولتے ہیں نا کوئی اور بولتا ہے ، ان کا حلقہ بغیر نمائندگی کے ہے ایسا تو نہیں ہونا چاہیے ، نئے رولز کی روح سے کیا علی وزیر اب ہر سیشن میں آ سکتے ہیں ؟۔
پی ٹی آئی وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ بالکل وہ سیشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر ساری جگہوں پر کیسے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں ، پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کردار ادا کرے اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ، ہر حکومت یہی کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ علی وزیر کا کیس اس دائرہ اختیار میں نہیں لیکن یہ بتائیں تو سہی علی وزیر پر کتنے مقدمے ہیں ؟ ان کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ جو آواز اٹھائے وہ خود اٹھایا جاتا ہے ، میڈیا رپورٹ کے مطابق نئے قواعد کے تحت جو ممبر پارلیمنٹ بھی گرفتار ہو اسے اجلاس میں شرکت کی اجازت ہو گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تو بہت اچھے رولز بنائے ہیں، پارلیمنٹ اجلاس کے دوران اب کوئی حلقہ نمائندگی کے بغیر نہیں رہے گا، پروڈکشن آرڈر جاری کرنا اب اسپیکر قومی اسمبلی کی صوابدید نہیں، عدالت توقع کرتی ہے کہ رولز میں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
یادرہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے قواعد میں ترامیم کی منظوری دے دی، جس ترمیم کے مطابق رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری کی اجازت اسپیکر سے لینا ضروری ہو گی اور قومی اسمبلی کے احاطے سے کسی رکن کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، اس کے علاوہ گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر لازمی جاری کرنیاور پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد رکن کی پارلیمنٹ لاجز کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کی ترمیم بھی منظور کی گئی۔
Comments are closed.