نیب مریم نواز سے قبل نواز شریف پر جرم ثابت کرے، اسلام آباد ہائیکورٹ
فائل:فوٹو
اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر ریمارکس دیئے کہ نیب مریم نواز سے قبل نواز شریف پر جرم ثابت کرے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے لندن کے اپارٹمنٹس اور نواز شریف کے درمیان تعلق پر نیب سے چار سوالات کے جوابات بھی مانگ لیے۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مریم نواز اور کیپٹن (ر ) صفدر کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔
عدالت کے سامنے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز، نیب پراسیکیوٹر عثمان چیمہ اور سردار مظفر عباسی پیش ہوئے۔ نیب پراسیکوٹر عثمان چیمہ نے دلائل کا آغاز کردیا اور کہا کہ 23 جون 2021ء کو عدالت نے نواز شریف کی اپیل خارج کی، مریم نواز کے خلاف نواز شریف کی اعانت کا چارج عائد کیا گیا تھا۔
نیب پراسیکوٹر نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ عدالت نے لکھا کہ نواز شریف کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا تھا، عدالت نے یہ بھی لکھا کہ مسلسل عدم حاضری پر عدالت کے پاس اپیل خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، عدالتی حکم کے مطابق وہ سرینڈر کریں یا پکڑے جائیں تو دوبارہ اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل میرٹ پر خارج نہیں ہوئی بلکہ اشتہاری ہونے کی وجہ سے خارج ہوئی، ایسا نہیں ہے کہ جو اپیل اس طرح خارج ہوئی اس کا چارج بھی درست ثابت ہوگیا اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مرکزی ملزم اب نہ عدالت کے سامنے ہے نہ اس کی اپیل موجود ہے، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا کردار مرکزی ملزم کی معاونت کا تھا۔
عدالت نے کہا کہ نواز شریف کا کیس ہمارے سامنے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اِن پر فرد جرم ٹھیک ثابت ہوگئی، مریم نواز کے وکیل نے میرٹس پر دلائل دیئے آپ میرٹس پر جواب دیں، اگر کوئی آبزرویشن آئی ہوئی ہے تو اس کے باوجود آپ کو اپنا کیس ثابت کرنا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ٹرائل کے بعد تو سپریم کورٹ کے فیصلے میں دی گئی ڈائریکشنز متعلقہ نہیں، سپریم کورٹ کی ڈائریکشنز پری ٹرائل تھی اب ٹرائل مکمل ہو چکا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو آبزرویشن دیں اس کا آپ کو ابھی فائدہ نہیں ملنا، نیب کو تمام الزامات آزادانہ طور پر ثابت کرنے تھے، سپریم کورٹ کی وہ آبزرویشن ٹرائل سے پہلے تک تھیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر یہ کیسز بنائے گئے تھے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے تو ٹرائل پروسیڈنگ کو دیکھنا ہے، سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ریفرنس دائر اور ٹرائل ہوا، ریفرنس اپنی strength پر چلنا ہے، اس اپیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ تو اس کیس کا بیک گراوٴنڈ ہے اب آپ آگے چلیں، سپریم کورٹ کے ججمنٹ کے بعد کیا نیب نے خود اس کی تحقیقات کیں؟ کیا آپ نے جے آئی ٹی سے ہٹ کر آزادانہ انویسٹی گیشن کی جس پر نیب نے کہا کہ جی ہم نے الگ سے اس کی انویسٹی گیشن کی تھی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے اثرات ہوسکتے ہیں، مریم پر چارج ہے کہ اس نے مس لیڈ کیا، یہ کس کو مس لیڈ کیا یہ آپ کو بتانا ہے۔
نیب نے کہا کہ مریم پر جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنانے اور کیلبری فونٹ کا چارج ہے، نیب نے بھی آزادانہ تفتیش کی، ملزمان کو کال اپ نوٹسز بھجوائے گئے، مریم نواز کو عدالت نے مس لیڈ کرنے پر سزا نہیں دی۔
جسٹس کیانی نے کہا کہ آج بھی ملزمان اسی جگہ کھڑے ہیں کہ ہم اس ڈاکیومنٹ کو تسلیم کرتے ہیں، آج نواز شریف ہمارے سامنے نہیں یہ بتائیں مریم نواز کے خلاف نیب کا کیس کیا ہے؟ ایک جملے میں مریم نواز کے خلاف کیس بتانا ہو تو کیا ہوگا؟
نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ مریم نواز نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری میں نواز شریف کی اعانت کی جس پر عدالت نے کہا کہ 1993ء سے 1996ء میں جب نواز شریف نے پراپرٹی ایکوائر کی تو آپ کو بتانا ہے مریم نواز نے کیا مدد کی۔
نیب نے کہا کہ یہ کیس نہیں ہے کہ باپ نے بیٹی کو گفٹ کیا ہے بلکہ مریم نواز نے نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے میں معاونت کی۔ اس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ بتائیں مریم نے کس انداز میں نواز شریف کی معاونت کی؟ نیب نے کہا کہ مریم نواز نے والد کی جائیداد بنانے اور چھپانے میں معاونت کی۔
جسٹس عامر نے پوچھا کہ آپ کو پھر بتانا ہے 1993ء میں مریم نواز نے جائیداد لینے میں مدد کی یا تو آپ بتائیں مریم نواز کا کردار 1993ء میں جائیداد لینے میں تھا یا پھر بتائیں ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر اْس جائیداد کو بنانے میں 2006ء میں مدد کی، آپ خود کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں۔
جسٹس عامر نے نیب سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ 2006ء میں ٹرسٹ ڈیڈ سے مریم نواز کا کردار شروع ہوتا ہے، اگر اثاثے بنانے میں معاونت کی تو پھر ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلبری فونٹ کو چھوڑ کر 1993ء سے چلیں۔ اس پر نیب نے کہا کہ ہم اس معاملے کو 2006ء میں ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ لے کر چلیں گے جس پر جسٹس عامر نے کہا کہ پھر تو 1993ء میں مریم نواز کا کوئی کردار نہیں ہوا۔
نیب نے کہا کہ 1993ء سے 1996ء کے دوران جب یہ پراپرٹیز خریدیں جارہی تھی اس میں مریم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جسٹس عامر نے کہا کہ تو نیب کا موقف ہے مریم نواز کا 1993ء میں پراپرٹیز خریدنے اور چھپانے میں کوئی کردار نہیں؟ جس پر نیب نے کہا جی بالکل اسی طرح ہی ہے۔
جسٹس محسن اختر نے کہا کہ ہم اپنی سمجھ کے لیے پوچھ رہے ہیں ٹریک کلئیر کر رہے ہیں جس پر آپ کو جانا ہے۔ نیب نے کہا کہ مریم نواز نے 2006ء میں مدد اور معاونت کی۔ جسٹس عامر نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے 1993ء میں اثاثے خریدے اور چھپائے تو آپ کو پھر شواہد سے ثابت کرنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی مدد اور معاونت کیسے کی؟
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیلسن اور نیسکول برٹش ورجن آئی لینڈ کے پاس رجسٹرڈ ہیں، نیلسن اور نیسکول نے 1993ء ، 1995ء اور 1996ء میں اپارٹمنٹس خریدے۔ عدالت نے کہا کہ کیا ان پراپرٹیز کا تعلق نواز شریف سے 1993ء سے 1996ء میں تھا یا ابھی بھی ہے؟
نیب پراسیکوٹر عثمان چیمہ نے کہا کہ جی بالکل تھا اور ابھی بھی ہے، آپ جو کہہ رہے ہیں یہ کیس نواز شریف کا ہے اور وہ ابھی عدالت کے سامنے نہیں۔
عدالت نے کہا کہ کیا قتل کے مقدمہ میں قتل کو چھوڑ کر مدد کرنے کو ثابت کیا جاسکتا ہے ؟ پہلے یہ تو پتا چلے کہ میاں محمد نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق کیا ہے، اگر تعلق ہی نا ہو تو پھر تو رہ کیا گیا ہے، پہلے آپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ پراپرٹیز نواز شریف نے خریدیں، اگر وہ پراپرٹیز خریدی گئیں تو پھر اس میں معاونت کا الزام آئے گا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم مفروضے پر نہیں جاسکتے، ہمیں حقائق کو دیکھنا ہے، اگر آپ نے ٹرائل کورٹ میں یہ ثابت کیا ہے تو وہ بتائیں۔ اس پر نیب نے کہا کہ ایسے کیسز موجود ہیں کہ مرکزی ملزم بری ہو گیا مگر اس کی معاونت کرنے والوں کو سزا ہوئی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ ڈاکیومنٹ سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کریں جس پر نیب نے کہا کہ نواز شریف کی حد تک ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار ہے۔ جسٹس عامر نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ مریم نواز، کیپٹن صفدر کو سزا ہو جائے اور نواز شریف بری ہو جائیں؟ نیب کو پہلے یہ ثابت کرنا ہے کہ جرم ہوا اس کے بعد ہی اعانت جرم کا الزام آئے گا۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نواز شریف کا 1993ء میں ان پراپرٹیز سے تعلق تھا یا نہیں، کرمنل لاء میں ہم نے شواہد دیکھنے ہیں فرضی بات تو نہیں ہو گی، اگر کسی شخص پر قتل میں معاونت کا الزام ہو، قتل ثابت کیے بغیر اعانت کیسے ہوسکتی ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں نواز شریف کے کیس سے شروع کروں گا پھر مریم نواز پر آوٴں گا، نواز شریف کی اپیل اس کیس میں خارج ہو چکی ہے جس پر جسٹس عامر نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل میرٹ پر نہیں بلکہ عدم پیشی پر خارج ہوئی تھی۔ نیب نے کہا کہ لیکن حقائق یہی ہیں کہ نواز شریف کی حد تک نیب کورٹ کا فیصلہ برقرار ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 342 کے بیان میں نواز شریف ان پراپرٹیز کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نواز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے، سپریم کورٹ اور نیب کورٹ ملکیت کا انکار کیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس بات پر کہ وہ وہاں رہ رہے ہیں پراسیکوشن کو ملکیت پھر بھی ثابت کرنی ہے کیونکہ اس وقت آدھا پاکستان دوسرے کے گھروں میں رہ رہا ہوتا ہے، قاتل کہہ بھی دے کہ قتل اس نے کیا ہے پھر بھی پراسیکوشن کو جرم ثابت کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے نیب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ان سے پوچھا کہ وہ ان پراپرٹیز میں رہ رہے ہیں تو کس حیثیت میں رہ رہے ہیں؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف اسی گھر میں وہاں جا کر رہتے تھے، چار فلیٹس کی اونر شپ پر کسی کا کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت نے نیب کو ہدایت دی کہ نیلسن اور نیسکول کا ٹائٹل ڈاکومنٹ دیکھائیں، ولایت میں بھی کوئی اتنا اچھا نہیں کہ فری میں کوئی پراپرٹی دے دے، وہ پیمنٹ کس نے کی؟ جب کہ آپ کے بقول کمپنیوں نے نواز شریف کی طرف سے پیمنٹ کی ؟ آپ کو ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف نے پیمنٹ کی اور ان کے بینیفشل اونر نواز شریف ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہم نواز شریف کے ٹیکس ریٹرن اور بینک اکاوٴنٹس نہیں دیکھیں گے کیونکہ ہم نواز شریف کا کیس نہیں سن رہے، ہم مریم نواز کا کیس سن رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ نواز شریف نے کیا کہیں بھی کہا تھا یہ جائیداد اْن کی ہے؟ جس پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر نہیں کہا جائیداد ان کی ہے۔
عدالت نے ہدایت دی کہ نیب یہ بھی بتائے کہ اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے ادائیگی نواز شریف نے کی، نواز شریف کا کمپنیوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں، کمپنیوں کا فلیٹس کے ساتھ تعلق ثابت کریں، فلیٹس 1993ء میں خریدنا ثابت کریں پھر اس کے بعد پھر مریم نواز کا فلیٹس سے تعلق ثابت کریں، اس سے زیادہ آسان زبان میں نیب سے سوال نہیں کرسکتے۔
بعد ازاں نیب نے عدالتی سوالات کے جواب کے لیے مزید وقت کی استدعا کردی۔ عدالت نے نیب کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں متعدد سماعتوں کے بعد سال 2018ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 11 سال قید کی سزا سناتے ہوئے ان پر 80 لاکھ برطانوی پاوٴنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
Comments are closed.