ایجنسیز کس کے کنٹرول میں ہیں ؟ لاپتہ افراد کا کون ذمے دار ہے ؟ چیف جسٹس
فوٹو: فائل
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دے کر نئی تاریخ دیدی، کہا حقیقت یہ ہے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی کچھ نہ کررہا، چیف جسٹس کے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں ریمارکس۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ حقیقت ہے کہ کوئی کچھ نہیں کررہا، اس وقت کتنے شہری لاپتا ہیں؟
سماعت کے دوران حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے عدالت کو بتایا کہ اتنے لوگوں کو اٹھایا گیا، ابھی تک پتا نہیں چلاکہ کس نے ان لوگوں کو اٹھایا۔
عدالت عالیہ میں لاپتہ افراد بازیابی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق ٹھوس اقدامات نہیں کرتی تو وزیراعظم کو طلب کریں گے۔
چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز میں نئی متفرق درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ اگر حکومت لاپتا افرادکیسز میں اقدامات نہیں کرتی تو9 ستمبر کو وزیراعظم پیش ہوں۔
عدالت کو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ عدالت کو ریاست کا ردعمل نظر آئے گا، متفرق درخواست کے ساتھ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وفاقی وزیر انسانی حقوق ریاض پیرزادہ کے انٹرویوز کا ٹرانسکرپٹ بھی منسلک کیا گیا۔
ٹرانسکرپٹ میں وزرا نے لاپتہ افراد سے متعلق اہم نکات پر گفتگو کی تھی،لاپتہ افراد کی جانب سے وکلا انعام الرحیم، ایمان مزاری اور دیگر جب کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاق کی جانب سے رپورٹ فائل کی ہے، ابھی کابینہ کی میٹنگ ہے ، اٹارنی جنرل اسپتال میں ہیں، انہوں نے استدعا کی ہے کہ سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کورٹ کیا کرے کیا؟ چیف ایگزیکٹو کو سمن کرے ؟ دو فورمز نے ڈیکلیئر کردیا کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے پھر کیا ہوا ؟ جے آئی ٹی جس میں آئی ایس آئی اور دیگر ادارے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے ۔
ایجنسیز کس کے کنٹرول میں ہیں ؟ لاپتہ افراد کا کون ذمے دار ہے ؟ چیف جسٹس کے ریمارکس،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایجنسیز وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول ہیں، انھوں نے پھر کہا وزیر داخلہ وفاقی کابینہ کی میٹنگ میں ہیں کیس ملتوی کیا جائے۔
کیس پر دلائل دیں یا چیف ایگزیکٹو کو سمن کریں گے
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ التوا نہیں ہو گا یا تو کیس پر دلائل دیں یا چیف ایگزیکٹو کو سمن کریں گے،یہ بڑا کلیئر ہے کہ نہ موجودہ نہ سابقہ حکومت کا لاپتہ افراد متعلق ایکٹیو رول ہے ،سب سے بہترین انٹیلی جنس ایجنسی نے یہ کیس جبری گمشدگی کا ڈیکلیئر کیا ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت صرف آئین کے مطابق جائے گی، بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے،بنیادی ذمہ داری وفاقی حکومت اور چیف ایگزیکٹو کی ہے ،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ کابینہ کمیٹی ان تمام ایشوز کو دیکھے گی ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت کسی کو جواب دہ ٹھہرانا چاہتی ہے، جس کے دور میں مسنگ ہوئے وہ ذمہ دار ہیں ، اگر احساس ہوتا تو ان کو عدالت آنے ہی نہ دیتے ان کو تلاش کرتے ۔ تمام اسٹیٹ ایجنسیز کہہ رہی ہیں تو پھر ریاست کو لاپتہ فرد کو پیش کرنا چاہیے تھا ۔
ریمارکس دیئے کہ دو سال سے تو لاپتا افراد کمیشن نے پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے ،سماعت کے دوران دو لاپتہ بیٹوں کے والد نے عدالت کو بتایا کہ میرے بیٹوں کے کیس میں بھی جے آئی ٹی کی رپورٹس ہیں کہ یہ جبری گمشدگی کے کیسز ہیں۔
اس دوران وکیل انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ 35 افراد سے متعلق سپریم کورٹ کے سامنے کہا گیا تھا کہ یہ آرمی اتھارٹیز کے پاس ہیں، عدالت نے کہا کہ 2013 کا سپریم کورٹ کا آرڈر ہے۔ یہ بہت سیریس معاملہ ہے، نیشنل سکیورٹی سے متعلق ہے۔
کلبھوشن سے فیملی مل سکتی ہے تو لاپتہ افراد کی فیملیز کی ملاقات کیوں نہیں ہوسکتی؟
،کیوں آرمڈ فورسز پر اس قسم کے معاملات میں ملوث ہونے کا الزام ہے، سپریم کورٹ کے آرڈر کے خلاف کوئی نظرثانی درخواست دائر ہوئی ؟ عدالت نے کہا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی فیملی سے میٹنگ کرا سکتے ہیں تو مسنگ پرسنز کی فیملیز کے ساتھ کیوں نہیں؟
چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو کمیٹی نے بلایا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے لیٹر بھی لکھا ہے لیکن کمیٹی نے بلایا نہیں ہے ۔
اس دوران فرحت اللہ بابر نے عدالت سے کہا کہ میری گزارش یہ ہے کہ میں ثبوت دوں گا ریاست کی ایجنسیز اس میں ملوث ہیں۔ 2019 میں آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ تمام لاپتہ افراد تو نہیں کچھ ہمارے پاس ہیں ہم ایک سیل بنائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فرحت اللہ بابر صاحب منتخب حکومت پارلیمنٹ نے کیا کیا ہے ، یہ تو آپ تسلیم کر رہے ہیں سویلین کنٹرول نظر انداز ہے ، آئی ایس آئی صرف حکومت کا ایک ڈیپارٹمنٹ ہے ، آئی ایس آئی وزیراعظم کے ڈائریکٹ کنٹرول میں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیارات ہیں،جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ مدد نہیں کرسکتی تو پھر چیف ایگزیکٹو آکر یہ کہے ۔ پھر آپ عدالت سے کیا توقع رکھتے ہیں یہ نیشنل سکیورٹی کا ایشو ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بے بس نہیں ہر ایک نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ۔ اگر کوئی بات نہیں مانتا تو اس کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی ہونی چاہیے، اگر کوئی ملٹری پرسن بھی ایسا کرتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے ۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف ان کا نہیں ہے، بائیس کروڑ عوام کی سکیورٹی کا بھی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمزور ہوتی ہے جب ان (لاپتہ افراد کی فیملیز )کو شک ہو کہ آرمڈ فورسز ملوث ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرمڈ فورسز کا وقار ہمارے مدنظر ہے اگر وہ ملوث ہیں تو ان کو بھی جواب دہ ہونا چاہیے ، عدالت آپ کو کچھ وقت دے رہی ہے اگر کچھ نہ ہوا تو پھر چیف ایگزیکٹو کو بلائیں گے ،بعد میں سماعت 9ستمبر تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.