وزیر اعلٰی کا انتخاب غیر آئینی، گورنر کا موقف، صدر نمائندہ مقرر کریں، عدالت

لاہور(زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیر اعلٰی کا انتخاب غیر آئینی، گورنر کا موقف، صدر نمائندہ مقرر کریں، عدالت نے صدر پاکستان عارف علوی کو حمزہ شہباز کی حلف برداری کے لیے نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی ۔

لاہور ہائی کورٹ میں نومنتحب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے حلف نہ لینے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب کے ساتھ میٹینگ کی، دو، تین وجوہات میں عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کے ساتھ اسپیکر اسمبلی حلف لینے کا پابند ہوتا ہے، حمزہ شہباز کی درخواست میں اسپیکر کو فریق نہیں بنایا گیا، گورنر کوئی ربڑ اسٹیمپ نہیں۔

چیف جسٹس امیر بھٹی نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے حلف نہ لینے کا کوئی جواز نہیں ہے، صدرِ پاکستان نے کہا کہ میں وزیر اعظم سے حلف نہیں لے سکتا میں بیمار ہوں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب قانون اور آئین کے مطابق نہیں ہوا، ایک خاتون ایم پی اے تشدد کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔

چیف جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے سب کچھ روک دیا جائے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ اس کیس کو پیر تک ملتوی کیا جائے۔ چیف جسٹس امیر بھٹی نے برہمی کا اظہار کیا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیوں مہلت دی جائے آپ کو، آپ کے پاس تو اس کے علاؤہ کام ہی نہیں، گورنر پریس کانفرنس کررہے ہیں تو کیا اس کیس کے لیےان کے پاس ٹائم نہیں، اگر یہ ایک ہوتا تو آپ مکمل تیاری کے ساتھ آتے، 21 دنوں سے پنجاب میں حکومت نہیں ہے، آپ کو اندازہ ہے صوبہ کیسے چل رہا ہے.

یہ الیکشن بھی جیسے ہوا سب کورٹ کے علم میں ہے، عدالت کے حکم پر چیف منسٹر کا الیکشن ہوا، جس طرح سے چیف منسٹر کے الیکشن میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے سب پتہ ہے

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ تحریری طور پر بتائیں کہ آج دلائل کیوں نہیں دے سکتے، اور کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہونے پر گورنر سے پوچھ کے بتائیں کہ وہ حلف کیوں نہیں لینا چاہتے۔

کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نےعدالت کو بتایا کہ میری گورنر پنجاب سے بات ہوئی، گورنر پنجاب صدر پاکستان کو حلف نہ لینے کی وجوہات بارے لکھ رہے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 21 دن سے ایک صوبے میں کوئی حکومت کوئی کابینہ نہیں ہے ، گونر پنجاب 5 دن سے بیٹھے ہیں حلف نہیں لے رہے عدالت کس سے پوچھے، گورنر کب وجوہات صدر پاکستان کو بھجوا رہے ہیں؟

حکومت کی عدم موجودگی کے باعث میں تین میٹنگز پوسٹپونڈ کر چکا ہوں، پنجاب حکومت کا جواب چاہیے تھا لیکن صوبے میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب نے ٹائم فریم نہیں دیا کہ وہ کب وجوہات لکھ کر بھیج رہے ہیں۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ آپ کوئی ٹائم فریم دیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو جواب دیا کہ قانون کے مطابق گورنر پنجاب کسی عدالت کو جواب دہ نہیں ہے، گورنر پنجاب صدر پاکستان کو جواب دہ ہیں، میرے خیال سے کل تک گورنر پنجاب صدر پاکستان کو وجوہات لکھ کر بھیجوا دیں گے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہآپ کہنا چاہتے ہیں کہ گورنر 24 گھنٹے میں صدر پاکستان کو وجوہات لکھیں گے، اس سے کلئیر ہے کہ گورنر حلف نہیں لینا چاہتے، اس کا مطلب ہے گورنر پنجاب وہ آئین کا احترام نہیں کرتے.

عدالت دو بجے تک سماعت ملتوی کرتی ہے، دو بجے تک اگر کوئی خط لکھ دیا جاتا ہے تو ٹھیک، ورنہ پھر عدالت آرڈر پاس کرے گی،دوبارہ سماعت پر اشتر اوصاف نے عدالت کو مؤقف پیش کیا کہ حلف اللہ کے سامنے ہوتا ہے گورنر کا صرف آئینی کردار ہے۔

چیف جسٹس امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ اب سوال ہے کہ اس کا حل کیا ہے، انہوں نے تو انکار کر دیا ہے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق گورنر پنجاب حلف لینے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ عدالت نے صدر پاکستان کو گورنر کی معذرت کے بعد حمزہ شہباز کی حلف برداری کے لیے نمائندہ مقرر کرنے کا کہا ہے.

Comments are closed.