آئین کی پاسداری ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے، نوازشریف

لاہور( ویب ڈیسک)آئین کی پاسداری ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے، نوازشریف نے یہ بات ویڈیو لنک پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی انھوں کہا ا ہے کہ ملک جس کھائی میں گرا ہوا ہے اس کو نکالنے کیلئے فوری سر جوڑ کر بیٹھیں۔

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے لاہور میں جاری عاصمہ جہانگیر ریفرنس سے آن لائن خطاب میں کہا آج 74سالوں کے بعد قوم پھر سے سوالات اٹھا رہی ہے اور آج پاکستان کے 22کروڑ عوام کو یہ جوابات دینے ہیں، اگر ان سوالات کے جواب نہ ملے تو مسائل پیدا ہوں گے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب آمریت کے اندھیرے ہوں، آئین پر شب خون، عدلیہ کی آزادی چھیننے کا کوئی وار ہو، جمہوری حکومتیں یا عدلیہ اپنے آئینی کردار سے تجاوز کرتیں تو عاصمہ جہانگیر پوری قوت سے مقابلہ کرتی تھیں، ان کی عاصمہ جہانگیر کی بہت کمی محسوس ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا اگر سوالات کرنے والوں کی زبان کھینچ لی جائے گی تو اس سے ملک کے مسئلے حل نہیں ہوں گے، آج بھی تاریں وغیرہ کاٹ کر زبان کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے اور کیا سوال کرنے والوں کو اٹھا لینے اور غائب کرنے سے سوالات ختم ہو جائیں گے۔

نواز شریف نے کہا موجودہ دور آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے حوالے سے سیاہ ترین دور ثابت ہوا ہے، سیاسی مخالفین، سیاسی کالم نگار یا سچ بولنے والی کوئی بھی آواز ہو تو اس کو اپنے سوال کی پاداش میں غائب یا قید کردیا جاتا ہے، یا پھر نوکری سے نکلوا دیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسے سیاہ قوانین تیار کیے گئے، جن کا مقصد سچ بولنے کی زبان بند کرنا ہے اور یہ ہم نے اپنی آنکھوں سے حال ہی میں دیکھا ہے، یہاں آئین اورقانون اور عدالتیں ٹوٹتی ہیں اور من پسند ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے یہاں لیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں سیاسی انجینئرنگ کی فیکٹریاں لگائی جاتی ہیں، ووٹ کو یہاں عزت نہیں ملتی، آر ٹی ایس یہاں بند ہوتا ہے، ووٹ چوری ہوتا ہے، منتخب حکومتوں کے خلاف دھرنے کیے بھی جاتے ہیں اور کروائے جاتے ہیں، حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی ہیں۔

http://

ماضی میں آئی جی آئی کے سربراہ بن کر وزیراعظم بننے والے نواز شریف نے منتخب حکومتوں کے بے توقیری کا ذکر بھی کیااور یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کی خودمختاری کا حال یہ ہے کہ چند منٹوں میں درجنوں قوانین بلڈوز کیے جاتے ہیں جیسے دو دن پہلے ہوا ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھاکہ یہ اسباب ہمارے زوال کا باعث بنے ہیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ دنیا ہم پر پابندیاں کیوں لگاتی ہے، کٹہرے میں کیوں کھڑا کرتی ہے، دنیا میں ہمارے کردار پر سوال کیوں اٹھائے جاتے ہیں۔

سیاستدان یا میڈیا نہیں، بلکہ آج جج بھی سچ بولے تو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، کیا یہ ہم سب کے لیے فکر کا مقام نہیں کہ آج جج بھی سچ کے متلاشی ہیں، انھوں نے الزام لگایا کہ ججوں پر دباؤ اور بلیک میلنگ سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے لیے جاتے ہیں۔

ماضی یا حال کے کسی جج کانام لئے بغیر نوازشریف نے کہا کہ کیسے عدلیہ کے جج ٹیلیفون کال کے ذریعے سزائیں دلوانے اور پھر ضمانت نہ دینے کے حکم صادر کرتے ہیں، اگر انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے منصف ہی ناانصافی کریں گے تو پھر معاشرہ اور ملک کیونکر تباہ و برباد نہیں ہو گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی عدلیہ بین الاقوامی انصاف کے انڈیکس میں کہاں کھڑی ہے، کیا ہم نے مارشل لا کو قانونی حیثیت نہیں دی، کیا ہم نے فوجی آمروں پر پارلیمنٹ کو توڑنے کے بعد اسے کبھی بحال کیا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آئین ہماری حدود کا تعین کرتا ہے اور ہمارے مسائل کے حل کی یہی چابی ہے، آئین نے لکیر کھینچ دی ہے کہ ذمے داری کیا ہے اور اسے کسے نبھانا ہے،ضیاء الحق کا نام لئے بغیر انھوں نے کہا کہ ایک عامر نے کہا آئین کاغذ کاٹکڑا ہے۔

نوازشریف نے تجویز کیا کہ ہمیں اپنا محاسبہ کر کے کہیں نہ کہیں سے شروعات کرنا ہو گی، اب یہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کا معاملہ ہے اور آئین دوٹوک بات کرتا ہے کہ مقدس وہی ہے جو آئین کی پاسداری کرے اور آئین کی دیواریں پھلانگے وہ مقدس نہیں آئین کا مجرم ہے۔

انھوں نے کہا اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو ہمارا مستقبل بہت تاریک ہو سکتا ہے،سب کو مل کر قومی بیانیہ پر متفق ہونے کی ضرورت ہے،
آئین کی پاسداری، اس کے ساتھ وفاداری اور اس کی روشنی میں اپنی حدود میں رہ کر فرائض کی بجا آوری ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔

نواز شریف نے واضح کیا کہ یہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا حق ہے کہ ان کو مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تباہی سے نجات ملے، انہیں صحت، انصاف اور تعلیم کے بنیادی حقوق میسر آئیں اور یہ کسی بھیک یا احسان کی صورت میں نہیں بلکہ اپنے حق کے طور پر ملیں۔

Comments are closed.