پورٹ قاسم پاور پلانٹ کا مینگروو کی افزائش کا ماحول دوست منصوبہ

مصباح صبا ملک

پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) کا بجلی بنانے کا منصوبہ کراچی کا پورٹ قاسم پاور پلانٹ نہ صرف پاکستان کے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوا ہے بلکہ اسکی ماحول دوست ٹیکنالوجی اور چینی ادارے کی مقامی مینگروو کے افزائش کے اقدامات کے باعث پاکستان میں اس منصوبے کا طوطی بول رہا ہے۔

چین کی پاور کنسٹرکشن کارپوریشن کے بنائے گئے 1320 میگا واٹ صلاحیت کے پاور پلانٹ میں دنیا کی صفِ اوّل کی ٹیکنالوجی سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جس کے باعث اس کے فضا پر مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ چینی کمپنی 25 ایکڑ رقبے پر محیط علاقے پر مینگروو کے پودوں کی افزائش بھی کر رہی ہے۔ ماحولیات کے شعبے سے وابسطہ تجزیہ کار اس کو ایک قابلِ ستائش پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف فیصل آباد کے شعبہِ ماحولیاتی انجینیرنگ سے وابستہ ڈاکٹر محمد عثمان فرید نے شِنہوا سے گفتگو میں کہا کہ ماحول دوستی میں پورٹ قاسم نہ صرف پاکستانی بلکہ عالمی معیار کے بھی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا مینگروو کے جنگلات کی افزائش کا بیڑا اٹھانا انتہائی مثبت اقدام ہے جو پاور پلانٹ کے اطراف کی فضا کو مزید خوشنما بنائے گا۔

درآمدی کوئلے سے چلنے والے پاور سٹیشن میں کمرشل کنٹریکٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر چن ژاؤ مینگروو کنزرویشن ٹیم کے سربراہ ہیں۔ وہ بہت مستعدی سے مینگروو کی افزائش کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مینگروو کا سرسبزو شاداب جنگل گزرتے وقت کے ساتھ خوب نمو پائے گا۔

چن کے مطابق چینی کمپنی نے مینگروو کے جنگل کے تحفظ کے منصوبے کو پاور پلانٹ کے بننے سے پہلے طے کیے جانے والے 200 اہداف کی فہرست میں شامل کیا تھا اور اس پر عمل درآمد کے لیے پاکستان میں مینگروو کی شجرکاری کرنے والا بہترین ٹھیکیدار تلاش کیا گیا۔

پاور پلانٹ انتظامیہ کے مطابق اس ضمن میں ایک معروف ماہر ماحولیاتی مشاورتی سروس جیمزکے ساتھ ان کی خدمات حاصل کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ چینی کمپنی نے وعدہ کیا کہ اگر شجرکاری مہم کے دوران ایک پودا خراب ہو جائے تو مزید پانچ پودے لگائے جائیں گے۔

چینی اور پاکستانی کمپنی کے مابین طے پانے والے معاہدے کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا جن کے مطابق پہلا مرحلہ پودے لگانے کا اور دوسرا مرحلہ ان کی دیکھ بھال کا تھا۔ اس مرحلے کے بعد پودوں کی شجرکاری کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کیا گیا اور اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی حتمی منظوری کے بعد مینگروو کے بیج کا انتخاب اور اسکی افزائش پر کام کیا گیا۔

متذکرہ اقدامات کے نتیجہ میں جب نومبر 2017 میں پورٹ قاسم کے بجلی کی ترسیل کا باضابطہ آغاز ہوا تو مینگروو کے جنگل کی شجرکاری کا اوّلین مرحلہ تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔

اس عرصے میں چن درختوں سے خاصے مانوس ہو چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ملازمت کی مدت مکمل کر کے جب وہ اپنے وطن واپس روانہ ہوں گے تو جانے سے قبل مینگروو کے جنگل سے ایک آخری الوداعی ملاقات ضرور کریں گے اور ان کی خوبصوت مہکتی یادوں کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ سمیٹ کر لے جائیں گے۔

مجھے یقین ہے کہ میرے جانے کے بعد بھی مینگروو کے درخت خوب پھلیں پھولیں گے اور ان کا خیال رکھنے والے باغبانوں کی زندگی بھی سکون اور سلامتی رہے گی۔

چن کے ساتھ پاور پلانٹ کے کمرشل کنٹریکٹ ڈیپارٹمنٹ پر کام کرنے والے پاکستانی کمرشل مینیجرمحمد بلال مقامی کمپنی جیمز کے ملازمین کے ساتھ مل کر مینگروو کے پودوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ وہ ہر ماہ ایک بار کشتی پر جنگل کا دورہ کرتے ہیں اور پودوں کی نشونما کا جائزہ لیتے ہیں۔

بلال کا شِنہوا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ منصوبہ ان کی کمپنی کی انتظامیہ کے دل کے بہت قریب ہے اور چین کے سی پیک کو ماحول دوست منصوبہ بنانے کی جانب ایک قدم ہے۔

ہم نے 64ہزار پودے بنڈال جزیرے کے ساحل پر کھلی جگہ لگائے ہیں جبکہ تقریباً ایک لاکھ مزید درخت جزیرے سے کچھ دور واقع نرسری میں لگائے گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ جب میں نے جزیرے کا دورہ کیا تو پودوں کی لمبائی تقریباً تین فٹ ہو چکی تھی اور مجھے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ بہت اچھی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔

بلال نے بتایا کہ مینگروو کے جنگلی حیات نے ساحلی پٹی اور جزیرے کے گرد و اطراف خوب سماں باندھ رکھا ہے۔۔ہلکی ہلکی سمندری ہوا میں لہلاتے مینگروو کے پودے، پانی میں ڈبکیاں لگاتے بگلے، لہروں کے اتار چڑھاو کے ساتھ کیکڑے اور پودوں پر اٹکھیلیاں کرتے ٹڈے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان سے کچھ ہی دور بجلی بنانے کا منصوبہ نہایت ماحول دوست اور فضائی آلودگی سے پاک ہے۔

اس حوالے سے مقامی لوگ کہتے ہیں چینی کمپنی کے مینگروو کے افزائش کے منصوبے کے باعث بگلوں سمیت اور دیگر پرندوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور جب یہ پودے اپنے جوبن پر پہنچیں گے تو نہ صرف ماحول پر مثبت اثر ڈالیں گے بلکہ جزیرے پر سیاحت کو بھی فروغ دیں گے اور مقامی لوگوں کے لیے پاور پلانٹ کے ثمرات میں ایک اور کا اضافہ ہو گا۔

Comments are closed.