عمران خان کے دور میں نیب آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب

فائل:فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عمران خان کے دور میں نیب آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ نیب کیسز میں جرم ثابت کرنے کا معیار ہی بدل دیا گیا ہے، سوال یہ بھی اہم ہے کہ نیب کیسز میں سزائیں ہونے کے بعد حالیہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ نیب قانون میں ترامیم لا کر اطلاق 1985 سے کر دیا جائے۔

چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کیس کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے عمران خان کے دور میں نیب آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے نیب ترامیم کے بعد 386 کیسز احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ جسٹس اعجازالاحسن نے آبزرویشن دی کہ 386 کیسز میں سے کتنے اراکین پارلیمنٹ کے تھے، عدالت یہ بھی پوچھ سکتی تھی کہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں 5 نیب آرڈیننس لائے گئے، اس وقت کتنے نیب ریفرنس واپس اور افراد بری ہوئے۔

وکیل نے کہا کہ عدالت یہ بھی پوچھے کہ تحریک انصاف کے آرڈیننسز سے بری ہونے والے ملزمان میں کون کون شامل ہے، نیب قانون میں حالیہ ترامیم پرانے قانون کا ہی تسلسل ہے، عدالت خود کو 386 نیب کیسز تک محدود نا رکھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے کہا کہ آپ بتا دیں نیب سے کیا سوالات پوچھیں نوٹ کرا دیتے ہیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا نیب بتائے کہ پی ٹی آئی کے آرڈیننسز کے ذریعے کتنے ریفرنس واپس ہوئے؟ نیب بتائے کہ نیب آرڈیننسز سے کتنے افراد بری ہوئے اور ٹرائل کورٹ نے بریت کی کتنی درخواستیں واپس کیں؟۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر نیب کو ختم کر بھی دیا جائے تو جرائم کے سد باب کے لیے دیگر قوانین موجود ہیں، ایسا کہنا درست نہیں کہ نیب کیسز سے بری ہونے والے صاف شفاف ہونے والے گھر چلے جاتے ہیں، یہ تاثر غلط ہے کہ نیب ختم ہو جانے سے قانون کی گرفت بھی ختم ہو جائے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ نیب کیسز میں جرم ثابت کرنے کا معیار ہی بدل دیا گیا ہے، سوال یہ بھی اہم ہے کہ نیب کیسز میں سزائیں ہونے کے بعد حالیہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ نیب قانون میں ترامیم لا کر اطلاق 1985 سے کر دیا جائے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم عظیم ایمنسٹی ہیں اور یہ بڑی عجیب بات ہے، مجھے یہ بھی پتا ہے کہ نیب قوانین کے علاوہ دیگر قوانین بھی موجود ہیں، اگر احتساب عدالت جرم سے بری کر دے تو ملزم گھر ہی جائے گا، کیس کے دوران میرے کیے گئے سوالات عارضی نوعیت کے ہیں۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 19 جنوری تک ملتوی کردی۔

Comments are closed.