ارشد شریف کے کچھ ڈیجیٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے یہ جے آئی ٹی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے،چیف جسٹس
فائل:فوٹو
اسلام آباد:سینئر صحافی ارشد شریف قتل کے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی۔ارشد شریف کے کچھ ڈیجیٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے۔پتا چلائیں وہ ڈیجیٹل آلات کینیا کی پولیس، انٹیلی جنس یا ان دو بھائیوں کے پاس ہیں۔ یہ جے آئی ٹی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔جسٹس اعجاز لاحسن نے کہا کہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے وزارت خارجہ سے ڈسکس کریں۔
سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر اسپیشل جے آئی ٹی کے ارکان، پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی مراد سعید اور ارشد شریف کی بیوہ بھی کمرے میں موجود تھیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پیش رفت سے متعلق استفسار کیا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رپورٹ جمع کروا دی ہے۔اسپیشل جے آئی ٹی نے 41 لوگوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ تحقیقات کینیا، امارات اور پاکستان 3 حصوں پر مشتمل ہے۔ جے آئی ٹی انکوائری کیلیے پہلے امارات اور پھر وہاں سے کینیا جائے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کینیا کی اتھارٹی متعلقہ افراد کو پیش کرنے کے لیے تیار ہے؟۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے کینیا کے جن لوگوں سے تحقیقات کرنی ہیں، ان کے نام دیے ہیں۔کل ہی یہ خط لکھا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کو وزارت خارجہ کی مکمل مدد حاصل ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جے آئی ٹی نے جن 41 لوگوں سے انکوائری کی، کیا وہ پاکستان میں ہیں؟۔ کیا جے آئی ٹی نے کسی سے ویڈیو لنک کے ذریعے انکوائری کی ہے؟۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو لوگ باہر ہیں ان سے پہلے کینیا جاکر انکوائری ہوگی۔ کینیا میں ان لوگوں سے تحقیقات کے بعد انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ تحقیقات کے 3 فیز ہیں۔ پاکستان، دبئی اور کینیا۔ کیا فیز 1 کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں؟، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیز 1 کی تحقیقات تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کے سوال پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تحقیقات مکمل ہونے کی ٹائم لائن نہیں دی جاسکتی۔ جے آئی ٹی پہلے دبئی، پھر کینیا تحقیقات کرے گی۔
دوران سماعت ارشد شریف کی بیوہ نے اسپیشل جے آئی ٹی کے 2 ارکان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی ارکان ملزمان کے ماتحت افسران ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی ریٹائرڈ لوگوں کو جے آئی ٹی میں شامل نہیں کر سکتے۔اے ڈی خواجہ ماضی میں آئی جی رہ چکے ہیں۔ جے آئی ٹی کو کام کرنے دیں ،اداروں پر اعتماد کریں۔ بعض اوقات ماتحت بھی بہت کچھ کر جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے جو اقدامات کیے وہ 20 دن پہلے کیے جانے چاہییں تھے۔ امید ہے جے آئی ٹی آئندہ یہ بات ذہن نشین رکھے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ رپورٹ میں بڑی گہری باتیں ہیں جو یہاں نہیں کر سکتے۔ جے آئی ٹی کو اپنا کام کرنے دیں۔
ارشد شریف کی بیوہ نے درخواست کی کہ اس کیس میں دہشت گردی اور قتل کی سازش کی دفعات شامل ہونی چاہییں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جے آئی ٹی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور وہ تمام پہلووٴں سے تحقیقات کرے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا امکان ہے کہ تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ضرورت پڑے گی تو یہ آپشن بھی موجود ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے وزارت خارجہ سے ڈسکس کریں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ تحقیقات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہے ہیں۔ عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لیے آزادی دے رہی ہے۔ معاملے کی صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہییں۔عدالت صاف شفاف تحقیقات کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی۔ارشد شریف کے کچھ ڈیجیٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے۔ کیاجے آئی ٹی کو یہ پتا چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں؟۔پتا چلائیں وہ ڈیجیٹل آلات کینیا کی پولیس، انٹیلی جنس یا ان دو بھائیوں کے پاس ہیں۔ یہ جے آئی ٹی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔
عدالت نے کہا کہ اْمید کرتے ہیں کہ جے آئی ٹی معاملے پر اچھی طرح تیار ہو کر تحقیقات کے لیے بیرون ملک جائے گی۔
بعد ازاں عدالت نے ارشد شریف قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.