کون سی پالیسی یا قانونی فریم ورک کے تحت ریکوڈک معاہدہ تشکیل دیا گیا،چیف جسٹس
فائل:فوٹو
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریکوڈک سے متعلق صدارتی ریفرنس میں حکومت سے کئی سوالات کے جوابات طلب کرلیے بیرسٹر فروغ نسیم، سلمان اکرم راجا اور زاہد ابراہیم ایڈووکیٹ کو عدالت معاون مقرر کردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی بتائیں کہ کون سی پالیسی یا قانونی فریم ورک کے تحت ریکوڈک معاہدہ تشکیل دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ لارجر بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ رولز میں نرمی خلاف قانون کی گئی، عدالت نے قرار دیا کہ ایک بین الاقوامی کمپنی کیلئے رولز میں نرمی کا اختیار نہیں تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا اب بھی رولز وہی ہیں یا ترمیم ہوچکی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک سے متعلق قانون میں ترمیم ہوچکی ہے، نئے قانون کے مطابق حکومت رولز میں ترمیم کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ رولز میں نرمی ہو بھی تو شفافیت لازمی ہے۔ عامر رحمان نے جواب دیا کہ ریکوڈک سے نکالی گئی معدنیات میں پاکستان کا حصہ پچاس فیصد ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حصہ جتنا بھی ہے لیکن قانون پر عمل کرنا لازمی ہے اس پر عامر رحمان بولے کہ قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا جا رہا، ریکوڈک معاہدہ ماضی کے عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، ماہرین کے مطابق ریکوڈک پر موجودہ حالات میں اس سے اچھا معاہدہ ممکن نہیں تھا، معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو 9 ارب ڈالر سے زائد ادا کرنا ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت کا دائرہ اختیار پوچھے گئے سوالات تک محدود ہوتا ہے، ریفرنس میں صرف آئینی سوالات کا ہی جائزہ لیا جا سکتا ہے، صدارتی ریفرنس میں سیاسی یا معاشی نوعیت کے سوالات کا جائزہ نہیں لے سکتے، انصاف تک رسائی آئینی تقاضا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدے سے کوئی تیسرا فریق متاثر ہو تو کیا اس کی حق تلفی نہیں ہوگی؟ انصاف تک رسائی کا حق ہر شخص کو آئین نے دیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت اربوں کی سرمایہ کاری پر 1970ء کے قوانین کیوں لاگو کرنا چاہتی ہے؟ حکومت بین الاقوامی سطح کے نئے قواعد و ضوابط کیوں نہیں بناتی؟ کیا بلوچستان حکومت نے کان کنی سے متعلق نئے قوانین بنائے ہیں یا نہیں؟ یہ نہ ہو قوانین کی عدم موجودگی میں نیا ریکوڈک معاہدہ عدالتی حکم کے رحم و کرم پر ہو، عدالت کو یہ بھی بتائیں کہ کون سی پالیسی یا قانونی فریم ورک کے تحت ریکوڈک معاہدہ تشکیل دیا گیا۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں بیرسٹر فروغ نسیم، سلمان اکرم راجا اور زاہد ابراہیم ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔ ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں بلوچستان ہائیکورٹ بار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
Comments are closed.