اسد عمر کی درخواست مسترد، پہلے پنجاب و کے پی میں دفعہ 144ختم کریں، چیف جسٹس

فائل:فوٹو

اسلام آباد: اسد عمر کی درخواست مسترد، پہلے پنجاب و کے پی میں دفعہ 144ختم کریں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب اور کے پی میں اس جماعت کی حکومتیں ہیں، آپ پہلے ان صوبوں میں جا کر یہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں، پھر یہاں آ جائیں۔

اس موقع پر اسد عمرکے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ سابق ایم این اے کی درخواست ہے جو اس عدالت کے دائرہ اختیار میں رہنے والا شہری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا یہ سابق نہیں، اب بھی رکن قومی اسمبلی ہیں، جب تک استعفیٰ منظور نہ ہو، تب تک رکن اسمبلی رہیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔ بعدازاں عدالت نے درخواست خارج کرنے فیصلہ سنادیا۔

اطہرمن اللہ نے کہا پی ٹی آئی کی اب بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں خاطر خواہ نمائندگی ہے، پارٹی ایوان میں دفعہ 144 کیخلاف بل لا کر اسے ختم کر سکتی ہے، پی ٹی آئی کے پاس پارلیمنٹ کا متبادل فورم موجود ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ دفعہ 144 کے تحت اگر کوئی اختیار کا غلط استعمال ہو تب ہی معاملہ عدالت آسکتا ہے، اسد عمر دفعہ 144 کے تحت ایگزیکٹو کے کسی فعل سے متاثرہ نہیں ہیں، صرف دفعہ 144 کا نفاذ ہونا بنیادی حقوق کی

وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا پھر سنا دیا ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر آپ نے ریلی نکالنی ہے تو اس کے لیے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں

اس سے قبل چیف جسٹس اطہر من اللہ کے روبرو کیس کی سماعت میں درخواست گزار اسد عمر کی جانب سے بابر اعوان نے عدالت میں موٴقف اختیار کیا کہ دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کے لئے غیرآئینی قانون ہے۔ برطانوی راج نے یہ قانون بنایا تھا جو آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس جماعت کی 2 صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی؟۔ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے، جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی کیا اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ نہیں رہا ؟۔

وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ سابق ایم این اے کی درخواست ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سابق رکن اسمبلی کی درخواست نہیں، پٹیشنر اب بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں آپ سے اختلاف نہیں کر سکتا مگر تصحیح ضرور کر سکتا ہوں۔ ہم نے سب کے سامنے کھڑے ہو کر استعفے دیے، اس میں ابھی نہیں جانا چاہتا۔ چیف جسٹس نے جواب دیا جب تک استعفا منظور نہیں ہوا، تب تک وہ رکن اسمبلی ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اس پارٹی کی دو صوبوں میں حکومت ہے، اگر سمجھتے ہیں تو پہلے وہاں ختم کرکے کنڈکٹ ثابت کریں۔ کیا دونوں صوبوں میں وہ دفعہ 144 نافذ نہیں کریں گے ؟۔وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ سات دن یا مسلسل دو دن یہ قانون نافذ رہ سکتا ہے۔ قانون میں لکھا ہے، جس سے باہر نہیں جا سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب اور کے پی میں اس جماعت کی حکومتیں ہیں، آپ پہلے ان صوبوں میں جاکر یہ قانون اسمبلی سے ختم کروائیں۔

اس پر بابر اعوان نے کہا کہ پٹیشنر اس عدالت کے دائرہ اختیار میں رہنے والا شہری ہے۔ میں سیاست کو عدالت سے باہر رکھنا چاہتا ہوں، یہاں آئین کی بات کروں گا۔ میں کورٹ کے سامنے اپنا سیاسی پلان نہیں رکھنا چاہتا۔

بابر اعوان نے کہا کہ اگر آئین سے متصادم کوئی قانون بنے تو عدالت سے کالعدم قرر دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ نے ریلی نکالنی ہے تو اس کے لیے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

Comments are closed.