نجی یونیورسٹی کی ویڈیوز وائرل ہونے پر 8 طالبات کی خودکشی کی کوشش

اسلام آباد: نجی یونیورسٹی کی ویڈیوز وائرل ہونے پر 8 طالبات کی خودکشی کی کوشش کے بعد پولیس یونیورسٹی میں داخل ہوگئی، طالبات کوایمبولینسز کے زریعے اسپتال منتقل کیا گیا۔

یہ واقعہ بھارتی شہر چندی گڑھ یونیورسٹی کا ہے جہاں طالبات کی یہ ویڈیو ان کی  ایک ساتھی ہی نے بنائی اور اپنے ایک ساتھی جو کہ اس وقت شملہ میں موجود تھا کو شیئر کردیں۔

اس لڑکے نے وہی ویڈیوز وائرل کیں جس کے بعد ہنگامہ مچ گیا، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد یونیورسٹی میں لڑکوں نے بھی احتجاج کیا۔

 احتجاج پر یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے خود قابو پانے کی کوشش کی تاہم ناکامی پر پولیس کو طلب کیاگیا اور اس دوران ہاسٹلز میں موجود بعض طالبات کے خودکشی کی کوشش کی۔

یونیوزسٹی میں ایمبولیسنز کی آمدو رفت کے بعد پتہ چلا کہ کچھ طالبات کو اسپتال منتقل کردیاگیاہے تاہم اس کے باوجود یونیورسٹی کی انتظامیہ اور موہالی پولیس کے ایس ایس پی نے خود کشی کی تردید کی۔

http://

ایس ایس پی وویک سونی کا کہنا تھا کہ بعض طالبات اسپتال منتقل کی گئی ہیں تاہم ڈاکٹرز کے مطابق خودکشی کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ وہ سب ذہنی کیفیت کا شکاراور واقعہ پر دل گرفتہ تھیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق لڑکی نے یہ ویڈیوز تب بنائیں جب بڑی تعداد میں فی میل سٹوڈنٹس نہا رہی تھیں اور وہ اس دوران ویڈیوز بنا کر اپنے دوست کو شملہ میں فاروڈ کرتی رہی اور وہ وائرل کرتا گیا۔

رپورٹس کے مطابق وائرل ہونے والی ویڈیوز کی بظاہر ایک ہی  لڑکی ذمہ دار ٹھہرائی گئی ہے جس نے پولیس کے سامنے اعتراف جرم بھی کرلیا تاہم ویڈیوز کی تعداد زیادہ بتائی جارہی ہیں۔

چندی گڑھ کی اس نجی یونیورسٹی کی کچھ طالبات کی جانب سے میڈیا کو بھیجے گئے آڈیو پیغام میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ہاسٹل کی ایک طالبہ نے دوسری طالبات کی نہاتے ہوئے ویڈیو بنا کر وائرل کر دی۔

وائرل ہونے والی آڈیو میں ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ اس میں لڑکیوں کی بہت سی ویڈیوز ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس پر کوئی سخت کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔

   بھارتی پنجاب کے وزیر تعلیم ہرجوت سنگھ بینس نے ٹوئٹر پر بیان میں طلبا سے پُر امن رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔

 انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اور ماؤں بہنوں کی عزت سے جڑا ہے، میڈیا سمیت ہم سب کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

بعض رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ ان طالبات میں بعض بااثر گھرانوں کی لڑکیاں بھی شامل ہیں جو اس معاملے کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں اور پولیس بھی چاہتی ہے کہ اس کیس میں شدت نہ آئے۔

Comments are closed.