بارشوں کا 30 سالہ ریکارڈ، سیلاب متاثرین کے لئے ہلال احمر کی خدمات
وقار فانی
طوفانی بارشوں اور سیلاب نے وطن عزیز کے بیشتر حصوں میں نظام زندگی منجمد کردیا ہے، مون سون بارشوں نے 30 سال کا ریکارڈ توڑا۔لاکھوں افراد متاثر ہو ئے ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے اور 1300 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
، 4 لاکھ 13 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا، 20 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ، 8 لاکھ مویشی، 2 ہزار 886 کلومیٹر شاہرائیں، 129 پل طوفانی بارش اور سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔جو موت کی آغوش میں چلے گئے ان کے لئے مغفرت کی دعائیں اور جو کسمپرسی میں ہیں ان کے لئے اہل وطن دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں۔
امدادی ادارے،فلاحی تنظیمیں،ٹرسٹ پوری تندہی سے خدمت خلق میں مصروف ہیں۔ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے مجموعی طور پر 116 اضلاع متاثر ہوئے، طوفان بارشوں اور سیلاب سے خیبر پختونخوا کے 33، سندھ کے17، بلوچستان کے34، پنجاب کے 16 آزاد جموں کشمیر کے علاوہ گلگت
بلتستان کے 6 اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق سیلاب کے باعث ملکی معیشت کو ابتک 10 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے اور اس نقصان میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے، ہلالِ احمر پاکستان نے سیلاب متاثرین کیلئے ابتدائی طور پر مختص رقم بڑھا کر 100 ملین روپے کردی ہے.
متاثرہ گھرانوں کو نقد امداد کے علاوہ ضروریات ِ زندگی کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ہلالِ احمر نے متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے 8 واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کیے ہیں۔یہ پلانٹ خیبرپختونخوا،کرک اور بنوں، بلوچستان میں جھل مگسی، جعفرآباد اور لسبیلہ، پنجاب میں مظفرگڑھ اوررحیم یار خان جبکہ سندھ کے ضلع دادو میں لگائے گئے ہیں۔
اِن پلانٹس سے مجموعی طور پرروزانہ 4 لاکھ 73 ہزار لٹرپینے کا پانی فراہم کیاجاتاہے متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں ہلال احمر نے اپنا حصہ بقدر جسہ ڈالا ہے مگر خدا نخواستہ پینے کے پانی کی قلت بحرانی صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔
اس جانب توجہ کی سخت ضرورت ہے۔ہلال احمر کے زیر اہتمام موبائل ہیلتھ یونٹس مستعدی سے کام کررہے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو طبّی سہولیات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ہلالِ احمر موبائل ہیلتھ یونٹس مستعدی سے کام کررہے ہیں.
اب تک ہزاروں لوگوں کو صحت کی سہولت پہنچائی جا چکی ہے۔2600 گھرانوں کو فی کس 16 ہزارروپے نقد امداد فراہم کی جاچکی ہے، 500 تربیت یافتہ رضاکار امدادی کاموں میں مصروف ِ عمل ہیں۔ پینے کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے 4600جیری کین بھی تقسیم کیے گئے.
سات ہزار گھرانوں کو مچھردانیاں بھی مہیا کی گئی ہیں راجن پور میں 500 گھرانوں کے لئے راشن پیکج ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا گیا ہے جبکہ محفوظ مقامات پر منتقلی اور ضروریات زندگی کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے۔ہلال احمر نے 35 ہزار متاثرہ افراد کو نقد امداد فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
خدمت کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین ابرارالحق نے انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس کے سیکرٹری جنرل سے ٹیلی فونک گفتگو میں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے عالمی سطح پر اپیل کرنے پر اتفاق کیا ہے، دونوں رہنماؤں نے سیلاب متاثرین کوریسکیو کرنے، بحالی و ریلیف کے کاموں کیلئے 35 ملین سی ایچ ایف کے لئے عالمی برادری سے حصہ ڈالنے کا کہا ہے۔
ہلالِ احمر پاکستان نے فیڈریشن سے ہیلی کاپٹرکی فراہمی کا بھی کہا ہے تاکہ ریسکیو اور ریلیف کے کام کو بہتر انداز میں مکمل کیا جاسکے۔ ہلال احمر نے اس جانب بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ سیلابی پانی میں ان پھٹا بارودہ مواد،بارودی سرنگیں بہہ کر آ تی ہیں۔
یہ شدید خطرہ کا باعث ہے یہ بارودی سرنگیں پھٹ جانے سے نقصان ہوتا ہے ایک دو واقعات سامنے آچکے ہیں ایسے میں ملک بھر میں آگاہی مہم جاری ہے ایسا مواد دیکھنے پر فوری طور پر بم ڈسپوزل سکواڈ کو مطلع کیا جائے۔
مارٹر گولے،ناکارہ سمجھے جانے والے بم،ہینڈ گرینیڈ وغیرہ نظر آجانے پر احتیاط برتی جائے انہیں چھونے سے گریز کیا جائے اور متعلقہ اداروں کو خبر کی جائے۔ہلال احمر کا مائینز رسک ایجوکیشن پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔
اب بات کرتے ہیں آبی آلودگی کی تو اس وقت سیلاب کے باعث سارا پانی آلودہ ہے،آلودہ پانی کاا ستعمال متعدد بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ہلال احمر پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ آٹھ واٹر فلٹریشن پلانٹ مکمل فعال ہیں اور متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراہمی بلا تعطل جاری ہے۔
سیلاب سے مویشیوں کی ہلاکتیں بھی معیشت کے لئے بھاری نقصان ہے ان کی باقیات کی موجودگی زندہ انسانوں کے لئے خطرات کا باعث ہیں۔متاثرہ علاقوں میں صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی میں ہلال احمر اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
میڈیکل کیمپس کے ذریعے متاثرہ لوگوں کو ادویات کی فراہمی بھی جاری ہے۔موبوئل ہیلتھ یونٹس مسلسل کام کر رہے ہیں۔متاثرہ گھرانوں کو راشن پہنچانے کے لئے ضلعی سطح پر بھر پور کام کیا جارہا ہے۔
ہلالِ احمر کے پلیٹ فارم سے ایمرجنسی اپیل کرکے وسائل بڑھانے کیلئے مؤثراقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔فلڈ کمیشن کے مطابق حالیہ سیلاب 2010کے مقابلے میں زیادہ سنگین ہے۔
بارشوں کی پیشگوئی، تباہ کاریوں کا صحیح اندازہ قیمتی جانیں بچانے میں معاون ہوتا ہے، علقات عامہ کے ڈپارٹمنٹس کو فعال ہونا چائیے، فیک خبروں اور افراتفری پھیلانے والی من گھڑت رپورٹس کاسدباب یقینی بنانا ہو گا۔ سیلاب کے بعد ملیریا، ہیضہ، ہیپاٹائٹس اور ڈینگی کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ماضی میں 1956، 1976، 1986 اور 1992 میں بڑے سیلاب آئے تھے۔ ان سیلابوں کے دوران بھی دریائے سندھ میں پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کالا باغ کے مقام پر آٹھ لاکھ 62 ہزار اور چشمہ کے مقام پر سات لاکھ 86,600 کیوسک سے نہیں بڑھ پائی تھی۔ اس سال کالا باغ کے مقام پر پانی کا بہاؤ نولاکھ کیوسک اور چشمہ پر دس لاکھ کیوسک سے تجاوز کرگیا۔
دریائے سندھ سے اس وقت گزشتہ ایک صدی کا سب سے بڑا سیلابی ریلا گذر رہا ہے۔متاثرین کو محفوظ پناہ گا اور خوراک کی کمی نہ ہونے دی جائے۔ہمیں اس سیلاب سے سبق سیکھ کر مستقبل کی پیش بندی میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چائیے۔
قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا،ماضی کے سیلابوں کے برعکس آج کی صورتحال زیادہ گھمبیر ہے،مون سون پلان پر مقامی سطح پر عملدرآمد کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے،عوام لاپروائی دکھاتے ہیں،مال مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کئے جا سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
ہلالِ احمر آخری متاثرہ شخص کی بحالی تک فیلڈ میں رہے گا اور اپنی بساط کے مطابق امدادی سرگرمیاں جاری رکھے گا۔ تعمیر ِ نو اوربحالی میں بھی بھرپور کردار ادا کیا جائے گا۔
Comments are closed.