قومی اسمبلی، ارکان سو گئے، شہبازشریف کی پہلے دھمکی پھر التجا

محبوب الرحمان تنولی

اسلام آباد: قومی اسمبلی کا سیشن طویل ہوا تو بعض ارکان نشستوں پر سو گئے، سابق صدر آصف زرداری سمیت کچھ بڑی عمر کے پارلیمنٹیرنز کو مسلسل بیٹھنا مشکل ہو گیا، حکومتی ارکان پہلے غصہ دکھاتے رہے بعد کہا پلیز ووٹنگ کرادیں۔

قومی اسمبلی کا وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہونے والے اجلاس میں حکومت و اپوزیشن کے ارکان نے خوب گرما گرم تقاریر کیں، اس دوران اجلاس کی صدارت کرنے والے اسپیکرز بھی بدلتے رہے۔

اسپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے ساڑھے دس بجے اجلاس کا آغاز کیا جب ووٹنگ کا شور مچااور اپوزیشن ارکان نے احتجاج کیا تواسپیکر نے اجلاس ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کردیا۔

اس دوران حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان ووٹنگ شروع کرانے پر بات چیت بھی ہوئی جب دوبارہ اجلاس شروع ہوا توپینل آف چیئرمین کے رکن امجد نیازی نے اسپیکر کی چیئر سنبھال کر کارروائی آگے بڑھانا شروع کی۔

 

اس دوران خواجہ سعد رفیق نےبتایا کہ فیصلہ ہوا ہے آٹھ بجے ووٹنگ ہو گی، جب وہ یہ اعلان کررہے تھے تو اس دوران حکومتی ارکان مسکراتے رہے ، میڈیا پر بھی فوری خبریں چلیں کہ آٹھ بجے ووٹنگ ہوگی لیکن پھرآٹھ بھی گزر گئے۔

اجلاس کے دوران بعض ارکان سو گئے ، ایک رکن اسمبلی کے مطابق نیند پورے کرنے والے ارکان یہ کہہ کر سوئے کہ جب ووٹنگ ہونے لگے تو جگا دینا ہم سحری کے بعد سوئے نہیں ہیں نیند آئی ہوئی ہے.

اجلاس کے دوران پہلے شور شرابے پر وقفہ ہوا تھابعد میں نمازکےلئے تین وقفے ہوئے۔ شہباز شریف جب پہلی بار تقریر کےلئے اٹھے تو خوب گرجے برسے اور سپریم کورٹ سے بھی حکومتی ارکان کو ڈراتے رہے ۔

قومی اسمبلی کا اجلاس جب وقفوں کے ساتھ جب نو گھنٹے تک چلتا رہاتو شہباز شریف نے مختصر تقریر کے ساتھ کہا مہربانی کریں اب ووٹنگ کردیں۔ آصف زرداری بھی بیٹھ بیٹھ کر تھک گئے اور پہلو بدلتے رہے۔

اجلاس جاری تھا پہلے خبر آئی کہ وزیراعظم نےنو بجے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے تو پھر انتظار میں بیٹھے اپوزیشن ارکان تھکن اور غصہ سےدانت پیستے رہ گئے کیونکہ اس خبر کا مطلب تھا کہ کابینہ اجلاس کے بعد تک اجلاس چلے گا۔

قومی اسمبلی اجلاس کے موقع پر جب بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں تو بولنے کا موقع بھی نہیں دیتے تھے تو اسپیکر نے کہا آپ کا جتنا مرضی ہے بولیں آپ کے پاس آج وقت ہی وقت ہے تاہم وہ بھی بولتے بولتے تھکے اور بیٹھ گئے۔

حکومتی بنچز سے شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شیریں مزاری ، عماد اظہر سمیت جتنے بھی ارکان نے اظہار خیال کیا وہ اپوزیشن جماعتو ں اور ان کے رہنماوں کے ایک دوسرے کے خلاف دیئے گئے بیانات یادلاتے رہے۔

شیریں مزاری نے اپنی تقریر میں پاکستان کے خلاف سازشوں کا تفصیلی ذکر کیا اور خاص کر وہ اپوزیشن بنچوں کی طرف اشارہ کرکے کہتی رہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بیرونی سازش کا حصہ بنے اور منتخب حکومت کی بساط لپیٹنے کی اسائمنٹ پوری کررہے ہیں۔

اپوزیشن کاساتھ دینے والے منحرفین کےلئے خصوصی احکامات جاری کئے گئے کہ وہ ادھر ادھر نہیں جائیں گے، طویل اجلاس کے باوجود پوزیشن ارکان حال میں موجود رہے بلکہ نماز بھی ادھر ہی پڑیں۔

Comments are closed.