اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا
اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا، فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی شک نہیں کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس غیرقانونی ہے اور اسے ختم کیا جاتا ہے، آرٹیکل 19 شہریوں کو حق آزادی اظہار رائے دیتا ہے.
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےپیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی.
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو ہی پامال بھی کیا گیا، آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور وہ سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں تھے، وہ سیکشن صرف اس لیے لگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جا سکے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا یہ بتا دیں کہ کیسے اس سب سے بچا جا سکتا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے، اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کہ آپ نے کسی عام آدمی کیلئے ایکشن لیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپا مارا گیا۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت کو بتایا کہ ہم ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں، پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟
جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے.
اس پر عدالت نے پوچھا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے؟چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا یہ تاریخ ہے، لوگ باتیں کریں گے،
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پہلے پیکا ترمیمی آرڈیننس پر فیصلہ محفوظ کیا بعد میں مختصر فیصلہ سناتے ہوئے پیکا آرڈیننس 2022 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔
عدالت نے 4 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ پیکا آرڈیننس کے تحت ہونے والی تمام کارروائیاں کالعدم قرار دی جاتی ہیں اور اس آرڈیننس سے متاثرہ افراد متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔
Comments are closed.