ووڈا کی نااہلی ختم ہوئی تو کیانواز شریف و ترین کو فائدہ پہنچے گا؟

فوٹو: فائل

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)کیا فیصل ووڈا کی نااہلی ختم ہوئی تو کیاکا نواز شریف و جہانگیر ترین کو فائدہ پہنچے گا؟ سیاسی حلقوں میں نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کو الیکشن کمیشن نے9فروری کو آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی سینیٹر شپ بھی ختم کردی گئی تھی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بھی آرٹیکل 62ون ایف کے تحت ہی تاحیات نااہل کیا گیا ہے اس لئے امید کی جارہی ہے کہ اگر فیصل ووڈا کو عدالت سے ریلیف ملا تو اس کا فائدہ ان دونوں کو بھی ہوسکتاہے۔

پی ٹی آئی اہنما فیصل ووڈا نے تاحیات نااہلی کو اسلام آبادہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے، عدالت سے الیکشن کمیشن کا 9 فروری کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

فیصل واوڈا کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں تاحیات نااہلی کیخلاف درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نیآرٹیکل63ون ایف کے تحت نااہل کیا اور آئینی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔

درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے مجھے مکمل طور پر سنے بغیرفیصلہ کیا ہے ، اس لئے اسلام آباد ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کا9فروری کافیصلہ کالعدم قرار دے۔

واضح رہے الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو دوہری شہریت کیس میں نااہل قرار دے دیا تھا، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فیصل واوڈا نے اپنے کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی سے کام لیا اور جعلی حلف نامہ جمع کرایا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ فیصل واوڈا کو آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا، وہ صادق اور امین نہیں رہے اور آرٹیکل 62ون ایف کے تحت ہی تاحیات نااہلی ہوئی۔

دوسری سے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور تحر یک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کو بھی آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا بحث یہ ہے کہ اگر فیصل ووڈا کی نااہلی یا تا حیات نااہلی ختم ہوئی تو کیا ان کو بھی فائدہ پہنچے گا کیونکہ مثال تو قائم ہو جائے گی۔

اگرچہ آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا جب کہ فیصل ووڈا کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا ہے تاہم آرٹیکل دونوں پر ایک ہی لگایا ہے۔

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اپریل 2018 میں اپنے ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی تاحیات ہے۔

آئین کے آرٹیکل 62 میں مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہلیت درج ہے، پہلی شق یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک پارلیمان کا رکن بننے کا اہل نہیں جب تک وہ مقرر کردہ معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔

متدکرہ شقوں میںآ رٹیکل 62 کی پہلی شق کی ذیلی دفعہ ایف 62( ون ایف) میں لکھا ہے کہ رکن پارلیمان بننے کے لیے ایک شرط امیدوار کا نیک سیرت، صادق اور امین ہونا بھی ہے اور اس کے برعکس ہونے کا اُس کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہ ہو۔

Comments are closed.