فواد حسن فواد نے جج رانا شمیم کے ایکسٹینشن مانگنے کی تصدیق کردی

فوٹو: فائل

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام) سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے فواد حسن فواد نے جج رانا شمیم کے ایکسٹینشن مانگنے کی تصدیق کردی، ملک میں ایک بیان حلفی سے پیدا شدہ ایشو پر گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ، ہاں!جج رانا شمیم نے ایکسٹینشن مانگی تھی اس کیلئے سفارشیں بھی کرواتے رہے۔

فواد حسن فواد نے کہا کہ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جج رانا شمیم کے درمیان موجودہ کنٹروورسی کے بارے میں نہیں جانتا لیکن یہ دونوں افراد غلط ہیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ جج رانا شمیم نے ایکسٹینشن مانگی تھی تو جواب دیا کہ سو فیصد ، بلکہ سفارشیں بھی کروائیں۔

معروف کالم نگار جاوید چوہدر ی نے اپنے کالم میں فواد حسن فواد سے اس حوالے سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے دو دن قبل فواد صاحب کو فون کیا اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے درمیان موجود کشمکش کے بارے میں پوچھا؟

فواد صاحب کا کہنا تھا میں موجودہ کنٹروورسی کے بارے میں نہیں جانتا لیکن یہ دونوں لوگ غلط ہیں میں نے پوچھا کیا رانا شمیم واقعی ایکسٹینشن چاہتے تھے فواد صاحب کا کہنا تھا سو فیصد اور رانا صاحب نے اس کے لیے سفارشیں بھی کرائیں میں نے پوچھا یہ ایکسٹینشن کیوں چاہتے تھے؟

جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ "فواد صاحب نے قہقہہ لگا کر جواب دیا میں پانچ سال وزیراعظم آفس میں رہا مجھے اس دوران ایک بھی ایسا سرکاری افسرنہیں ملا جس نے ایکسٹینشن کے لیے کوشش نہ کی ہو۔

فواد حسن فواد نے کہا کہ صدر پاکستان سے لے کر چپڑاسی تک سرکار کا کوئی عہدیدار نوکری چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتایہ موت تک اپنے عہدے سے چپکے رہنا چاہتا ہے میں نے پوچھا کیوں؟ یہ ہنس کر بولے شاید سرکاری ملازمین کی زندگی میں ملازمت کے علاوہ کوئی تفریح کوئی چارم نہیں ہوتا ۔

جاوید چوہدری فواد حسن کی زبانی بتاتے ہیں جکہ جج رانا شمیم بھی اس چارم کا شکار تھے لہٰذا انھوں نے ایکسٹینشن کے لیے سرتوڑ کوشش کی پارٹی کے عہدیداروں سے بھی سفارش کرائی ڈاکٹر آصف کرمانی بھی ان کے سفارشی تھے وزیراعظم نے میری رائے لی میں نے انکار کر دیا۔

فواد حسن فواد کہتے ہیں میرا خیال تھا ایکسٹینشن نہیں بنتی یہ میرٹ کا قتل ہو گا وزیراعظم نیایکسٹینشن ری جیکٹ کر دی،رانا شمیم میرے ساتھ ناراض ہو گئے یہ جج تھے انھوں نے کابینہ کے کسی فیصلے کو جوازبنا کر مجھے توہین عدالت کا نوٹس دے دیا۔

جج رانا شمیم مجھے اپنی عدالت میں بھی دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی خواہش پوری ہونے سے پہلے مجھے نیب نے گرفتار کر لیا میں نیب کی حراست میں تھا لیکن رانا صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور انھوں نے مجھے گلگت طلب کر لیا ۔

کالم نگار لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا اور جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟ یہ بولے میں ان پر تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن پوری دنیا جانتی ہے میاں نواز شریف کو کیوں اور کیسے نااہل کیا گیا تھا اور 2018 کے الیکشنز کیسے ہوئے تھے؟

میں نے پوچھا یہ درست ہے آپ کو جسٹس ثاقب نثار نے پرنسپل سیکریٹری کی حیثیت سے دو بار عدالت طلب کیا تھا فواد صاحب ہنس کر بولے یہ درست ہے مجھے پہلی بار دل کے اسٹنٹس کی قیمت کم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا میں عدالت میں حاضر ہوا۔

چیف جسٹس میرے ساتھ شائستگی اور تہذیب کے ساتھ پیش آئے طلب کرنے پر معذرت کی اور فرمایا ہم آپ کی مدد لینا چاہتے ہیں دل کے اسٹنٹ چار ساڑھے چار لاکھ روپے میں مل رہے ہیں اور غریب مریض یہ رقم ادا نہیں کر سکتے آپ درمیان میں آئیں۔

انھوں نے ہدایت کی کہ امپورٹرز اور مینوفیکچررز کو وزارت صحت کے فیصلہ سازوں کے ساتھ بٹھائیں اور مسئلہ حل کرا دیں میں نے دو دن مانگے انھوں نے مجھے ایک ہفتہ دے دیا میں نے میٹنگ کی اور تین دن میں مسئلہ حل کرا دیا جسٹس ثاقب نثار نے بھری عدالت میں میری تعریف کی۔

فواد حسن فواد کہتے ہیں پھر 48 گھنٹے بعد 3فروری 2018 کو مجھے عطاء الحق قاسمی صاحب کی تقرری کے جرم میں نوٹس آ گیا مجھے چیف جسٹس کی عدالت میں طلب کیا گیا میں پیش ہوا تو صورت حال بالکل مختلف تھی چیف جسٹس نے بھری عدالت میں کہا کون ہے یہ فواد حسن فواد؟

میں کھڑا ہوا اور پھر میرے ساتھ وہ ہوا جسے میں آج تک بھلا نہیں سکا مجھ پر الزام لگایا گیا میں نے عطاء الحق قاسمی کو چیئرمین پی ٹی وی بنوایا تھا میں نے وضاحتیں دیں،لیکن وہ دن اور پچھلا دن سو فیصد مختلف تھا ۔

Comments are closed.