اشرف غنی نے افغانستان سے فرار ہونے پر قوم سے معافی مانگ لی

کابل( ویب ڈیسک) افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے ملک انوکھے انداز میں چھوڑنے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے اور کہاہے مجھے باقی زندگی اس بات کا افسوس رہے گا۔

اشرف غنی نے حالیہ بیان میں اپنی حکومت کے خاتمے کے انداز پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میرا اپنی قوم اور اپنے وژن کو اس طرح چھوڑ کر جانے کا ارادہ نہیں تھا۔

سابق افغان صدر اس سے قبل بھی افغانستان سے فرار پر بیان جاری کر چکے تھے تاہم حالیہ بیان میں انھوں نے قوم سے معافی مانگی ہے اور ایک بار پھر ملک چھوڑنے کی وجوعات دہرائی ہیں۔

ٹوئٹر پر بیان میں سابق صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ان پرافغان صدارتی محل کی سیکیورٹی نے زور دیا تھا کہ وہ کابل کی سڑکوں کو خون خرابے سے بچانے کے لیے یہاں سے چلے جائیں۔

اشرف غنی نے کہا کہ مجھ پر یہ قرض ہے کہ میں کابل کو اچانک چھوڑ دینے پر افغان عوام کو وضاحت پیش کروں، تاہم اس سے قبل اشرف غنی نے جو بیان جاری کیا تھا اس میں کہا تھا کہ یہ میرا فیصلہ تھا کہ خون خرابہ نہ ہو نئے بیان میں صدارتی محل کا فیصلہ بتایاہے۔

سابق افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ کابل چھوڑنا میری زندگی کا سب سے مشکل ترین فیصلہ تھا، لیکن میرا ماننا ہے کہ بندوقوں کو خاموش رکھنے اور کابل کی 60 لاکھ کی آبادی کو بچانے کا یہی واحد راستہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک جمہوری، خوشحال اور خودمختار ریاست کی تعمیر کے لیے میں نے افغان عوام کی مدد کرتے ہوئے اپنی زندگی کے 20 سال دیئے افغان عوام اور اپنے وژن کو اس طرح چھوڑ کر جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کابل سے اپنی روانگی اور اس فیصلے کا باعث بننے والے واقعات پر جلد اپنی قوم کو تفصیل سے آگاہ بھی کریں گے، اشرف غنی نے کابل سے جاتے کروڑوں ڈالر ز لے کر جانے کے الزام کی بھی تردید کی۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میرا باب بھی اسی طرح ترقی و استحکام کو یقینی بنائے بغیر ختم ہوا جس طرح مجھ سے پہلے والے حکمرانوں کا دور اقتدار ختم ہوا تھا، میں اپنا دورِ اقتدار علیحدہ انداز میں ختم نہیں کرسکا۔

واضح رہے15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اس وقت منصب صدارت پر فائز اشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے تھے اور کئی دنوں تک ان کی منزل سے متعلق متضاد خبروں کی اشاعت کے بعدمتحدہ عرب امارات میں پناہ لینے کی تصدیق ہوئی تھی۔

Comments are closed.