فوٹو : سوشل میڈیا
لاہور( زمینی حقائق ڈاٹ کام)ثناء نے دوبازوں اور ایک ٹانگ سے محروم ہو جانے والے منگیتر سے شادی کرکے سب کو چونکایا ہی نہیں انسانیت کو جھنجوڑ کہ رکھ دیا، محبت کی لازوال جیتی جاگتی کہانی دیکھنے والے اپنی آنسووں پر قابو نہ سکیں ، لڑکی ثناء نے وہ کر دکھایا جو شاید کوئی نہ کرسکے۔
یہ زندہ مگر گم شدہ کہانی ڈھونڈ کر معاشرے کے سامنے برطانوی نشریاتی ادارے نے رکھ دی ہے۔ویڈیو رپورٹ میں لڑکی ثناء کی والہانہ اور سچائی پر مبنی محبت نے دیکھنے والوں کو بھی رلا دیاہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس نومبر تک ثناء مشتاق اور ان کے منگیتر داؤد صدیق کی زندگی بھی معمول کے مطابق رواں دواں تھی، دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور زندگی بھر ساتھ جینے کے عہد وپیمان باندھ رہے تھے۔
نومبر2020میں اچانک داود کو ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جب وہ اپنے گھر کی سیڑھیوں سے چھت پر جارہا تھا کہ داؤد کے ہاتھوں میں موجود ڈنڈا اوپر بجلی کے تاروں سے ٹکراگیا جس کے بعد ہونے والے دھماکے سے داؤد کا جسم بری طرح جھلس گیا۔
کرنٹ لگنے کے باعث داؤد کا جسم اس قدر شدید متاثر ہوا کہ داؤد کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹرز کو ان کے دونوں بازو اور ایک ٹانگ کاٹنا پڑی،داؤد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد بالآخر تین ماہ بعد اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔
داؤد جب اسپتال میں زندگی کی سانسیں گن رہا تھا تو ایسے میں اس کی بہادر منگیتر ثناء اس کے پاس پہنچی ، اسے آواز دی اورحوصلہ دیا کہ داود ٹینشن نہ لے۔ ساری دنیا بھی تیرا ساتھ چھوڑ دے ثناء تیرا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔
داود کے بے جان جسم میں جیسے جان آگئی ہو۔ان کے چہرے پر زندگی کے آثار نمایاں ہوئے اور مسکراہٹ پھیلی۔پھر یوں ہوا کہ داود کی منگیتر ثناء اپنے اہل خانہ اور دنیا بھر کے سامنے ڈٹ گئی۔کہا جو مرضی ہو جائے میں داود سے ہی شادی کروں گی میں اسے اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔
ثناء کے گھر والے داؤد کے دونوں بازو اور ایک ٹانگ کٹ جانے کے بعد ثناء کی ان سے شادی کے حق میں نہیں تھے لیکن ثناء نے ہار نہ مانی اور گھر والوں کو چھوڑ کر داؤد سے شادی کر لی۔
آج ثناء ہر محبت کرنے والے شخص کے لیے ایک مثال بن چکی ہے جس نے کسی بھی آسائش اور ظاہری خوبصورتی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے منگیتر داؤد سے شادی کی، اب ثناء داؤد کا ہرکام خود کرتی ہے۔
ثناء کے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں آنسووں کی جھڑی لگی تھی لیکن اس کاحوصلہ چٹان کی طرح مضبوط نظر آرہا تھا۔ کہتی ہیں میں نے داود سے کہہ دیا تھا کہ ٹینشن نہ لے میں تیرا ساتھ نبھاوں گی چائے جو مرضی ہو جائے۔
داود نے بتایا کہ ڈاکٹرز تو میری موت کے منتظر تھے انھیں خود یقین نہیں تھا کہ میں بچ جاوں گا۔لیکن جب اس حالت میں زندگی کی طرف واپسی ہوئی تو یقین نہیں تھا کہ کوئی ایسے میرا ساتھ دے گا۔
انھوں نے کہا کہ میں نے خود بھی ثناء سے کہا تھا کہ تو اپنی زندگی خراب نہ کر میرے نصیب میں اگر کوئی ہوا تو مجھے مل جائے گا لیکن ثناء نے کہا کہ جب وعدہ کیا ہے تو پورا کروں گی مجھے کسی اورسے شادی نہیں کرنی۔
چھوٹی عمر کی ثنا مگر مضبوط اعصاب کی مالک ثناء دھیمے لہجے میں اٹل بات رہی تھی، ایک سلجھی ہوئی لڑکی جس کی والدہ کا چند برس قبل انتقال ہو گیا تھا اپنے تین بہن بھائیوں اور گھر کو سنبھال رکھا تھا، والد اس شادی سے منع کررہا تھا ۔
والد نے کہا کہ تم کیا کرو گی؟ داؤد کے بازو نہیں ہیں، اس کی ٹانگ نہیں۔ میں نے کہا مجھے پرواہ نہیں۔ میں نے اس کا ساتھ دینا ہے۔ گھر والوں نے کہا تم ایک شخص کے لیے سب کو چھوڑ دو گی؟ میں نے کہا مجھے بس داؤد چاہیے۔
دوسری طرف داود کاکہنا ہے کہ میں نے ثناء کو شادی کا نہیں بولا ، مجھے پتہ تھا ایسا کرنا ثناء سے زیادتی ہوگی،ہر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اچھا نظر آنے والا ہو، صحت مند ہو۔ میری جیسی حالت میں کون کسے قبول ہوتا ہے۔۔
ثناء کے گھر والوں نے مسئلے کا حل اس طرح نکالنا چاہا کہ ثنا کی کہیں اور بات پکی کر کے جلد ہی منگنی کروا دی اور شادی کی تاریخ مقرر کر دی۔
شادی سے دو ہفتے قبل ثنا گھر چھوڑ کر نکل گئیں لیکن وہ داؤد کے پاس بھی نہیں جا سکتی تھیں۔ داؤد اور ان کے گھر والے بھی ثنا کو سمجھا رہے تھے۔
ثنا اپنی ایک خالہ کے گھر چلی گئیں۔ثنا اب واپس گھر جانے کو تیار نہیں تھیں۔ ایک ماہ اپنی عزیزہ کے ہاں وقت گزارنے کے بعد انھوں نے داؤد سے پھر رابطہ کیا اور داود سے کہا اب مجھے منع نہ کرنا۔ اب تو میں سب کچھ چھوڑ کے آ گئی ہوں۔ تو اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر میں داؤد کے پاس آ گئی۔
ثناء مشتاق یہ بتاتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھےگذشتہ ماہ داؤد کے ماموں کے گھر پر ایک چھوٹی سی تقریب میں ان دونوں کی شادی ہو گئی لیکن ثنا کے گھر والے اس میں شریک نہیں ہوئے۔
شادی کے بعد اب داؤد کا ہر کام ثنا خود کرتی ہیں۔ انھیں کپڑے تبدیل کروانا، کھانا کھلانا اور مرہم لگانے میں ان کا دن گزرتا ہے تاہم ان کے لیے سب سے اہم داؤد کو بے بسی کے احساس اور دکھی ہونے سے بچانا ہے۔ اور یہ کام آسان نہیں۔
ہر ایک کی طرح داؤد کو کسی دوسرے پر بوجھ بننا پسند نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ بھرائی ہوئی آواز میں وہ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی سہارا دے کر غسل خانے لے جاتا ہے یا باہر تک لے جاتا ہے تو یہ خیال آتا ہے کہ خدا نے یہ میرے ساتھ کیا کر دیا۔
ثنا ساتھ ہی خود کو بھی حوصلہ دیتی ہیں۔ جب انھوں نے یاد کیا کہ کیسے داؤد انھیں کہتے تھے کہ شادی کے بعد انھیں گھمانے لے جائیں گے تو ان کی آواز بھی بھر آتی ہے۔اب مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں کہتی ہوں کوئی بات نہیں جب آپ ٹھیک ہو جاؤ گے تو آپ مجھے خود لے جانا ساتھ۔
ثنا کے گھر والے اب بھی اس سے ناراض ہیں۔ داؤد کے ایک تایا نے بھی ان سے بول چال ختم کر رکھی ہے تاہم حال ہی میں ثنا کے والد نے فون پر ان سے بات کی تھی، ثناء نے بتایا کہ میں نے کہا میں ٹھیک ہوں اور خوش ہوں۔ پھر میں نے کہا یہ داؤد سے بات کریں، تو میرے بابا نے فون بند کر دیا۔
یہ بتاتے ہوئے انھوں نے پہلے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی لیکن پھر وہ خود کو رونے سے روک نہ سکی۔میں نے داؤد سے کہا آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ انھوں نے کہا میں تو بس یہ چاہتا ہوں تم خوش رہو۔ میں نے کہا آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ میں اپنے بابا کو منا لوں گی۔
ثنا نے کہامیں سوچتی ہوں کہ اگر میرے ساتھ یہ واقعہ ہو جاتا تو میرے گھر والے کیا سوچتے اور اگر اس وقت داؤد مجھے اپنا لیتے تو ان کو کتنی خوشی ہوتی۔ اب اگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو انھیں تو خوش ہونا چاہیے مگر وہ یہ نہیں سوچتے۔
ثنا کے ساتھ بیٹھا داود آنسو شاید پونچھنا چاہتا تھا۔ اس کی طرف دیکھ کر وہ صرف اتنا کہہ پایا کہ اس نے تو جو کر دیا ہے وہ کوئی نہیں کرتا۔ بڑا حوصلہ چاہیے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کے گھر والے اس سے راضی ہو جائیں۔
داؤد کی سوچ میں کسی پر بوجھ بننا اب بھی شامل نہیں۔ وہ صرف تھوڑی سی مدد چاہتا ہے، حکومت سے اپیل کی کہ میرے مصنوعی بازو اور ٹانگ لگوا دیں یا مجھے کوئی کاروبار کروا دیں تاکہ میں اپنی فیملی کی خود دیکھ بھال کر سکوں۔