نفسیات دماغ اوررویوں کی سائنس ہے، مدیحہ قمر
ثاقب لقمان قریشی
نام: مدیحہ قمر
رہائش: اسلام آباد
تعلیم: ا۔ ایم ایس سی کلینیکل سائیکالوجی رفاہ یونیورسٹی لاہور ب۔ پوسٹ گریجوئیٹ ڈپلومہ کلینیکل سائیکالوجی فاؤنڈیشن یونیورسٹی راولپنڈی
خاندانی پس منظر:
والد کی پرانا قلعہ راولپنڈی میں کپڑوں کی دکان تھی۔ 2013 میں انھیں کینسر تشخیص ہوا۔ چھ مہینے بیمار رہنے کے بعد 18 ستمبر 2014 کو وفات پاگئے۔ خاندان پانچ بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ہے۔ بڑی بہن ذہنی بیمار ہیں ان سے چھوٹی مدیحہ ہیں۔ تیسرے نمبر کی بہن نے نفسیات میں بی ایس کیا ۔ چوتھے نمبر کی بہن نے بی کام کیا ہے جبکہ پانچویں نے میتھس میں بی ایس کر رکھا ہے۔ تینوں بہنیں شادی شدہ ہیں۔ ایک بھائی بی ایس سی ایس کر رہا ہے۔ سب سے چھوٹا بھائی حفظ قرآن کے بعد آٹھویں جماعت میں ہے۔مدیحہ قمر کی ‘زمینی حقائق ڈاٹ کام’ سے خصوصی نشست کا احوال.
سوال: آپ کو لاحق مرض کا نام کیا ہے؟ ہڈیاں کیوں ٹوٹ جایا کرتی تھیں؟ کتنا علاج ہوا اور کن کن ہسپتالوں سے ہوا؟ ہڈیوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ کتنے عرصے تک جاری رہا؟
ڈاکٹرز کی مختلف آراء تھیں۔ ذیادہ تر اوسٹیوپروسس مرض پر متفق تھے۔ والدین کے مطابق مدیحہ کا پہلا فریکچر صرف دو ماہ کی عمر میں ہوا۔ پھر اس سلسلے نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔ سال میں دو سے تین فریکچرز ہو جایا کرتے تھے ۔ ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا یہ سلسلہ دس سال کی عمر تک جاری رہا۔ والدین نے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے لے کر حکیموں اور طب نبوی کا سہارا لیا گیا لیکن کوئی خاص افاقہ نہ ہوا۔
سوال: معذوری کی وجہ سے بچپن میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ بچپن میں کس قسم کے کھیل کھیلا کرتی تھیں؟
بہت کم گو تھیں۔ ٹانگوں کے فریکچر کی وجہ سے زیادہ تر وقت گھر ہی میں گزرتا تھا۔ اسی لیے ذیادہ تر وقت کہانیاں پڑھنے میں یا بہنوں کے ساتھ کھیلنے میں گزرتا تھا۔
گڑیا کے ساتھ کھیلنا، ڈاکٹر، ٹیچر یا پھر گھر گھر جیسے کھیل بچپن کے پسندیدہ ترین کھیل ہوا کرتے تھے۔
ایک دفعہ ساری بہنیں مل کر کھیل رہی تھیں۔ سب نے پہاڑ بنایا۔ ننھی پریوں کا یہ پہاڑ صوفہ سیٹ ڈائیننگ ٹیبل اور کرسیوں پر مشتمل تھا ۔ بچیوں نے اس پہاڑ پر چڑھنے کے لیے امی کے سارے دوپٹے ایک ساتھ باندھ کر لمبی سی رسی بنا لی۔ والدہ کو واردات کا موقعے پر اندازہ نہیں ہوا، بعد میں دیکھنے پر خوب ڈانٹ پڑی۔ دوپٹوں کی ان گانٹھوں کو کھولنے میں سخت مشکل پیش آئی۔
سوال: ابتدائی تعلیم کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟سکول کا انتخاب کیسے کیا گیا؟
والد صاحب نے متعدد سکولوں کے دوروں کے بعد سکول کا انتخاب کیا۔ قدرت کی کرنی ایسی ہوئی کہ مدیحہ صرف دو سال ہی سکول جا سکیں۔ شروع کے دنوں میں والدہ صاحبہ مگود میں اٹھا کر سکول لے جایا کرتیں۔ والد صاحب والدہ کی پریشانی دیکھتے ہوئے ایک سائیکل لے آئے جس نے والدہ کی مشکل کو کافی آسان کر دیا ۔باقاعدگی سے سکول جانے کا سلسلہ ایک سال تک اسی طرح چلتا رہا۔ لیکن بدقسمتی سے مدیحہ کے ایک ہی ماہ میں دو فریکچرز ہوگئے جس کے بعد سکول جانے کا سلسلہ رک گیا۔ والدین مدیحہ کی تعلیم کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔ سکول جانا مسائل میں اضافے کا سبب بن سکتا تھا اسلیئے سکول کی استانی کو ٹیوشن پڑھانے کیلئے لگا لیا گیا۔
حصول تعلیم کا سلسلہ نویں جماعت تک اسی طرح چلتا رہا۔ گھر میں رہتے ہوئے تعلیمی سفر کو جاری رکھنا آسان کام نہیں تھا، جب کبھی ٹیچر تبدیل ہو جاتیں یا نوکری چھوڑ جاتیں تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا۔ایک طرف تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا تو دوسری طرف نیا استاد ڈھونڈنا پھر اسکے طریقہ کار کو سمجھنا مشکلات میں اضافے کا سبب بنتا۔ مدیحہ کو پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ انھوں دو مرتبہ دو جماعتوں کے اکٹھے پرچے دیئے۔
سوال: نویں اور دسویں جماعت میں سکول کیسے آیا جایا کرتی تھیں؟
مدیحہ ٹرانسپورٹیشن اور رسائی کو خصوصی افراد کا اہم ترین مسئلہ قرار دیتی ہیں۔ ریگولر تعلیم کا منقطع سلسلہ نویں جماعت سے دوبارہ شروع ہوا۔ سکول گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ویل چیئر پر جانا مشکل کام تھا۔ اسلیئے سکول آنے جانے کیلئے وین لگا لی۔ ویل چیئر وین میں جگہ لیتی پھر اسے اتارنا چڑھانا بھی مشکل کام تھا اسلیئے والد صاحب نے سکول کیلئے ایک اور ویل چیئر دلا دی۔چاچو کے سکول میں داخہ لینے کی وجہ سے سکول میں بھر پور توجہ ملتی۔ اس طرح صحت، رسائی، ٹرانسپورٹیشن اور مختلف مسائل کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے مدیحہ اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
سوال: کالج کی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ ٹرانسپورٹیشن، کلاسز اور باتھ روم تک رسائی میں کن مشکلات کا سامنا رہا؟
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج فار وومن راولپنڈی سے ایف اے کیا پھر اسی کالج سے نفسیات میں بی ایس آنرز کیا۔
کالج کے ابتدئی ایام میں دو تین پریڈ اوپر ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پرنسپل سے درخواست کرنے پر کلاسز کو نیچے منتقل کردیا گیا۔ اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ کو بہترین قرار دیتی ہیں۔ جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو ایچ او ڈی یا پرنسپل صاحبہ سے درخواست کرنے پر اسکا فوری حل نکال لیا جاتا۔
کالج کے باتھ روم، رسائی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے۔ اسلیئے ان کے استعمال میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔کالج آنے جانے کیلئے وین لگا رکھی تھی۔ وین سے اترنے اور چڑھنے میں دوست مدد فراہم کر دیا کرتی تھیں۔
سوال: ایم اے کیلئے لاہور کیوں چلی گئیں؟
وطن عزیز میں رفاہ یونیورسٹی کی ڈگری نفسیات کے مضمون کے حوالے سے اہم تصور کی جاتی ہے۔ بی اے کے بعد راولپنڈی کی فاؤنڈیشن یونیورسٹی سے نفسیات کے مضمون میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کرنے کے بعد راولپنڈی کی رفاہ یونیورسٹی میں داخہ لینے کی کوشش کی لیکن راولپنڈی کیمپس میں نفسیات کے حوالے سے کوئی پروگرام موجود نہیں تھا۔ اسلیئے اپنے شوق کی تکمیل کیلئے لاہور چلی گئیں پھر وہیں سے نفسیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
سوال: کیا رسائی کا مسئلہ یونیورسٹی کی تعلیم میں بھی مشکلات کا باعث بنا؟
فاؤنڈیشن یونیورسٹی میں ڈپلومے کے دوران رسائی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ اسکی وجہ لفٹ تھی۔ جس کی مدد سے باآسانی ایک فلور سے دوسرے فلور پر جانا آسان تھا۔ رفاء یونیورسٹی میں بھی رسائی کے بہترین انتظامات تھے۔ لفٹ کے ذریعے اوپر نیچے کے پریڈ آسانی سے اٹینڈ کر لیتی تھیں- لفٹ کے خراب ہونے کی صورت میں چھٹی کرنا پڑتی تھی۔ کیونکہ اکثر کلاسز دوسری منزل پر ہوا کرتی تھیں۔
سوال: سائیکالوجی میں دلچسپی کیوں تھی اور بطور مضمون اس کا انتخاب کیوں کیا؟
انسانی نفسیات اور معاشرتی رویوں پر لکھی تحریروں کو پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ کالج کی تعلیم میں نفسیات واحد مضمون تھا جسے منتخب کرتے وقت کبھی سوچنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
سوال: سائیکالوجی کی تعریف بیان کریں؟
امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن کے مطابق ، نفسیات دماغ اور رویوں یا طرز عمل کا سائنسی مطالعہ ہے۔
نفسیات دماغ اوررویوں کی سائنس ہے۔ نفسیات میں غیر معمولی طور پر شعور اور لاشعور کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ احساس اور سوچ کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ نفسیات کا مضمون معیشت، سیاست، کھیل، صحت، طب سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
سوال:سائیکالوجی کو کب اور کیسے میڈیکل سائنس کی برانچ تسلیم کیا گیا؟
سائیکالوجی کی تاریخ انسان جتنی پرانی ہے۔ سترویں صدی کے مشہور فلاسفر جان لاک نے بچے کے ذہن کو "بلینک سلیٹ” یا تبولا راسا سے تشبیح دی اور کہا کہ اس کی زندگی کے تجربات اسکی شخصیت کا تعین کرتے ہیں۔ جبکہ افلاطون اور رینی ڈسکریٹس کے نظریات یہ کہتے ہیں کہ بچہ پیدائشی طور پر کچھ خصوصیات کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔
تجرباتی سائیکالوجی کا آغاز انیسویں صدی میں جرمنی سے ہوا۔ جرمنی کے مشہور سائنسدان ولہم وونڈ نے 1879 میں نفسیات کے موضوع پر دنیا کی پہلی تجرباتی لیبارٹری قائم کی۔ اسکے تھوڑے ہی عرصے میں ولیم جیمز نے کیمرج میں لیباٹری قائم کی۔ اس طرح انیسویں صدی سے انسانی ذہن کی ساخت، حصوں اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا تجرباتی جائزہ لینے کا آغاز ہوا۔
میڈیکل سائیکالوجی اکیڈمیز نفسیات کو "اسپیشلیٹی یا ایک ٹرم” کے طور پر بیان کرتی ہیں جنھوں نے "اسپیشلیٹی بورڈ سرٹیفیکیشن” بھی قائم کر رکھا ہے ، لیکن امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن میڈیکل نفسیات کو "اسپیشلیٹی ” تسلیم نہیں کرتی۔ اسی لیے سائیکالوجی کو ابھی تک میڈیکل سائنس تسلیم نہیں کیا گیا۔
مصنوعی ذہانت کے دور میں سائیکالوجی کو کیا اہمیت حاصل ہوگی؟
مصنوعی ذہانت ایک سائنسی انقلاب ہے جوہماری زندگی کو مکمل طور پر بدلنے کیلئے تیار کھڑا ہے۔
ایسے مستقبل میں جہاں مصنوعی ذہانت زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرے گی وہاں نفسیات ہی وہ مضمون ہوگا جو لوگوں کو غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گا۔ سمارٹ فونز اور گیجڈز ایک طرف رابطے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں تو دوسری طرف معاشرے اور معاشرتی رویوں پر بھی گہرے اثر کا باعث بن رہے ہیں۔ آج کا انسان خاندان، دوست اور احباب سے ذیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزار دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے قریبی رشتے کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی یہ نئی لت نت نئے قسم کے نفسیاتی کا مسائل باعث بن رہی ہے۔
ہر گزرتا دن نفسیات کے مضمون کی اہمیت اور افادیت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جدت کے دور میں ماہر نفسیات ہی وہ شخص ہوگا جو انسان کو تیز ترین حالات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ رشتوں میں توازن قائم رکھنے میں مدد فراہم کرے گا۔
سوال: ہمارے معاشرے میں ٹینشن اور ڈپریشن کی اہم ترین وجوہات کیا ہیں؟
ٹینشن اور ڈپریشن ہمارے ملک کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ وطن عزیز کی بڑی آبادی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ حکومت وقت کو ان مسائل پر قابو پانے کیلئے مناسب منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ وہ دن دور نہیں جب نفسیاتی مسائل ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہونگے۔
نفسیاتی مسائل کی بنیادی وجوہات میں طبقاتی نظام، وسائل کی نامناسب تقسیم، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، تعلیمی نظام، دہشتگردی، لسانیت، صوبائیت، نظام عدل، آزادی رائے اور اظہار کی کمی، غیر جمہوری رویے وغیرہ شامل ہیں۔
سوال: ٹینشن فری زندگی گزارنے کے کچھ گر بتائیں؟
مشکلات اور پریشانیاں ہی زندگی کی اصل خوبصورتی ہیں۔ انکے ختم ہو جانے سے زندگی بے رنگ اور بے رونق ہو جاتی ہے۔ اصل کام مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرنا ہے۔ ہم میں سے جو لوگ اس کام میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں وہ "خوش” کہلاتے ہیں اور جو ناکام ہو جاتے وہ ٹینشن کے مریض بن جاتے ہیں۔
ٹینشن سے نجات پانے کیلئے ماضی کی ناکامیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، مستقبل میں جو ہونا ہے اسے خدا پر چھوڑتے ہوئے حال میں جینا ہوگا۔ حال بہتر ہوگا تو مستقبل خود بخود بہتر ہو جائے گا۔
ہنسنے کے عمل کو سائنسی زبان میں لافٹر تھراپی کہا جاتا ہے۔ زور زور سے قہقہے لگانے سے ٹینشن کو دور بھگایا جاسکتا ہے۔ ہنسنے سے جسم میں صحت مند جسمانی اور جذباتی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ یہ تحریک جسم کے مدافعتی نظام کو مستحکم کرتی ہے اور ٹینشن کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
گہری سانس یا ڈیپ بریتھینگ بھی خیالات اور احساسات کو دور کرنے سے روکنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
سوال: ہاؤس جاب کہاں کی؟ کیسا تجربہ رہا؟
پہلی ہاؤس جاب کے آر ایل ہسپتال میں کی۔ جبکہ دو مرتبہ بےنظیر بھٹو ہسپتال میں دو بار انٹرنشپس کر چکی ہیں۔ ہاؤس جابز میں نئی تھراپیز اور ٹیسٹس سیکھنے کو ملے۔ ہاؤس جاب کو سیکھنے کے عمل کی پہلی سیڑھی قرار دیتی ہیں۔
سوال: آپ کو مختلف ہسپتالوں سے جاب کی آفر ہوچکی ہے کون سا مسئلہ جوائنگ کے راستے کی رکاوٹ بنا؟
بہت سے ہسپتالوں نے جاب کی آفر کی لیکن رسائی کے مسئلے کی وجہ سے جاب حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ اکثر کلینکس میں مریضوں کے وارڈ پہلی یا دوسری منزل پر ہوتے ہیں۔ لفٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مدیحہ کیلئے مریض چیک کرنا ناممکن ہے۔
سوال: لکھنے کا شوق کب سے ہے؟
پڑھنے اور لکھنے کا شوق وراثت میں ملا ہے۔ والد صاحب بہترین شاعری کیا کرتے تھے۔ جبکہ نانا ابو کی ضیائے زیست کے نام سے کتاب شائع ہو چکی ہے۔ تاریخی کتابیں، ناول اور کہانیاں بچپن سے پڑھتی آرہی ہیں۔ مدیحہ کی بہت سی تحریریں مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہوچکی ہیں۔
سوال: پسندیدہ ادیب اور شعرا کے نام بتائیں؟
اردو ادب اور شاعری میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ عمیرہ احمد، نمرہ احمد، مستنصر حسين تارڑ,سمیرہ حمید، ہاشم ندیم اور قاسم علی شاہ پسندیدہ ادیب ہیں جبکہ امجد اسلام امجد، پروین شاکر، فیض احمد فیض، وصی شاہ اور علامہ اقبال کی شاعری پسند ہے۔
سوال: رشتوں کی قدر کب لکھا؟ ناول میں کیا پیغام دینے کی کوشش کی؟
مدیحہ نے 2018 میں "رشتوں کی قدر” کے نام سے اپنا پہلا ناول لکھا۔
ناول میں موبائل فون کے انسانی معاشرے اور رشتوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی۔ نوجوان نسل کو ٹیکنالوجی کے درست استعمال کے حوالے سے ہدایات دی گئی ہیں۔
سوال: "امید زندگی” میں کیا پیغام چھپا ہے؟
مدیحہ کی ایک کہانی "امید زندگی” نے خوب شہرت کمائی۔ اس کہانی میں انھوں نے ہمیشہ کیلئے بچھڑ جانے والے پیاروں کو الوداع کہنے اورانکی یادوں کے سہارے جینے گر سکھائے ہیں۔
سوال: اپنی کسی نظم کے چند اشعار شیئر کریں؟
نئے سال کے حوالے سے مدیحہ نے ایک نثری نظم "نیا سال: لکھی ہے۔اس کے دو اشعار حاضر خدمت ہیں۔
"آج اِک اور برس بِیت گیا
ناامیدی، دکھوں اور آس کو وہ لے گیا”
نئے سال کی ایسی یا اللہ سحر ہو
جہاں بَلائے ناگہانی کا کوئی بھی ڈر نہ ہو”
سوال: کیا آپ کھانا پکا لیتی ہیں؟ کیا کچھ بنا لیتی ہیں؟ کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں؟
کوکنگ کم ہی کرتی ہیں۔ ہر چیز پکا لیتی ہیں۔ چکن جلفریزی بنانے میں خاصی مہارت رکھتی ہیں۔ دیسی کھانے پسند کرتی ہیں۔
مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟
سوال : نفسیات کے مضمون پر مزید تحقیق کرنا چاہتی ہیں۔ نفسیاتی مریضوں کیلئے جدید سہولیات پر مبنی ایک ہاسپٹل بنانا چاہتی ہیں۔ جہاں مریض کو علاج کے ساتھ ساتھ بہتریں کاؤنسلنگ فراہم کی جاسکے۔
سوال: ماہرنفسیات کے طور پر خصوصی خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
معذوری فطری ہے۔اس کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے طاقت بنانے کی کوشش کریں۔ ہمارے معاشرے میں خصوصی افراد خاص کر خواتین کے حوالے سے ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتیں ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہے۔ اس تاثر کو بدلنا ہے کہ معذوری انسان کو کام کرنے سے روکتی ہے۔ جبکہ حقیقت یکسر مختلف ہے۔خصوصی خواتین محنت اور لگن سے روایتی سوچ کو بدلنے کی کوشش کریں تاکہ دنیا انھیں ترس کے بجائے فخر کی نگاہ سے دیکھے۔