ٹرمپ افغانستان سے فوج واپس بلانے میں سنجیدہ ہیں،ترجمان طالبان

0

اسلام آباد(نیٹ نیوز)افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوج واپس بلانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔

وائس آف امریکہ نے طالبان کے ترجمان کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ دی ہے جس میں یہ دعوی ٰ کیا گیاہے کہ ٹرمپ کے بارے میں یہ موقف سامنے آیاہے۔

وی او اے کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کو خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے واٹس ایپ کے ذریعے گفتگو میں افغان جنگ کے حل کی امید کا بھی اظہار کیا ہے۔

طالبان ترجمان کا یہ بیان امریکی حکام کے ان حالیہ بیانات کے بعد سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ طالبان کی ساتھ بات چیت صحیح راستے پر گامزن ہے۔

طالبان اور امریکی حکام کے تواتر سے سامنے آنے والے مفاہمانہ بیانات سے ان قیاس ا?رائیوں کو تقویت ملی ہے کہ 17 سال سے جاری افغان تنازع کے حل کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے۔

صدر ٹرمپ بارہا بیرونِ ملک تعینات امریکی افواج کو وطن واپس بلانے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں اور ان کی اس خواہش کا اثر بظاہر طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں ہونے والی حالیہ بات چیت پر بھی پڑا ہے۔

جمعے کو ‘اے ایف پی’ سے گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان تنازع کے حل کے لیے ایک لائحہ? عمل پر اصولی اتفاق ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس لائحہ عمل پر عمل ہوا اور امریکہ نے اس کے لیے دیانت داری سے اقدامات کیے اور ان پر قائم رہا تو تو پھر ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکہ کا افغانستان پر قبضہ ختم ہوجائے گا۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے بھی رواں ہفتے طالبان کے ساتھ ایک مجوزہ سمجھوتے کے فریم ورک پر اتفاقِ رائے کا عندیہ دیا تھا۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی (فورسز کے) انخلا سمیت کئی معاملات طے ہونا باقی ہیں۔

جمعے کو اپنی گفتگو میں طالبان ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امن سمجھوتے کی صورت میں انہیں افغانستان میں ایسا اسلامی نظام قائم ہونے کی توقع ہے جس میں تمام افغانوں کے لیے گنجائش ہوگی۔

طالبان نے 1996ء میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہاں اسلامی قوانین نافذ کیے تھے۔ لیکن 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں ان کا اقتدار ختم ہو گیا تھا۔

اس حملے کے بعد سے طالبان افغانستان میں بطور ایک گوریلا فورس سرگرم ہیں اور مسلسل افغانستان سے غیر ملکی فورسز کی انخلا اور ملک میں دوبارہ اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

‘اے ایف پی’ کے ساتھ انٹرویو کے دوران بھی ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا پہلی منزل ہے اور دوسرے (مرحلے میں) وہ اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم طالبان ترجمان نے واضح کیا کہ وہ ایسا کوئی بھی نظام مختلف سیاسی حلقوں سے بات چیت کے بعد ہی تشکیل دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کابل حکومت اس نظام کے قیام کی راہ میں حائل نہیں ہو گی پھر ان کے بقول "جنگ کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کے اس حالیہ موقف کا اعادہ کیا کہ طالبان افغانستان میں اجارہ داری کے خواہاں نہیں اور ان کے بقول، "ان شاء اللہ تمام افغان بشمول مختلف سیاسی فریق مستقبل کے نظامِ حکومت) میں شامل ہو سکتے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ ایسے کسی بھی نظام کی بنیاد شوریٰ (مشاورت) کا اصول ہو گی جس میں عوام اور علماکے نمائندوں کی شمولیت سے اسلامی ماہرین فیصلے کریں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ انہیں افغانستان میں ایسا نظام قائم ہونے کی 100 فی صد امید ہے۔

طالبان ترجمان نے تسلیم کیا کہ 1990ء کی دہائی میں ان کے اقتدار کو متعدد معاشی، سماجی اور سیکورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا جن میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ خواتین اور مردوں کو کیسے الگ الگ رکھا جائے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اب طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں اور وہ خواتین کو حصولِ تعلیم اور کام کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کریں گے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ جو کچھ اسلامی شریعت نے خواتین کے لیے جائز قرار دیا ہے اس کی افغان خواتین کو اجازت ہو گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.