طاقتور ملزمان کےہراسانی کیسزکو سپریم کورٹ میں نہیں سنا جارہا
فوٹو: فائل
اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ لوگوں کے ہراسانی کے کیسز سپریم کورٹ میں ہیں، جو ملزمان بااثر اور طاقتو ر ہیں ان کے کیسز کو سنا نہیں جاتا ہراسانی کے مقدمات بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہیں ۔
ایوان صدر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر شیریں مزاری کاکہنا تھا اگر ہمیں مثالی طور پر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں خواتین کے ساتھ ہراسانی کے خلاف بہت واضح اور ٹھوس مؤقف اپنانا ہوگا، انھوں نے واضح کیاکہ میں صرف ہراسانی کی بات نہیں کر رہی، ہمارا مؤقف صنفی تشدد سے متعلق بھی ہونا چاہیے۔
شیریں مزاری نے صدر مملکت عارف علوی کو اس حوالے سے اقدامات لینے پر سراہا اور مبینہ ہراسانی میں ملوث افراد کو قومی ایوارڈز کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جس پر ہراسانی کا شبہ ہو۔
شیریں مزاری نے کہا کہ بحیثیت حکومت، بحیثیت ایک ریاست ہمیں کسی بھی ایسے شخص کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جس پر ہراسانی کا شبہ ہو،
ہمیں ایوارڈز کے لیے ان پر (ہراساں کرنے والے مبینہ افراد) غور نہیں کرنا چاہیے جب تک قانون پوری طرح اپنا فیصلہ نہ کرے۔
شیریں مزاری نے بتایا کہ کس طرح موجودہ حکومت نے بچوں سے بدسلوکی، خواتین کی وراثت سے متعلق آگاہی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے، خواجہ سراؤں سے متعلق قانون پیش کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں یہ تصور موجود ہے کہ اگر ایک عورت سر نہیں ڈھکتی، اگر وہ ترقی پسند ہے تو وہ قصوروار ہے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ اگر وہ عورت ہراسانی سے متعلق شکایت کرتی ہے اور وہ شوبز میں ہے تو آپ سمجھیں گے وہ غلط کر رہی ہے، جب کہ
دوسری جانب وہ مرد جن کا شوبز سے تعلق ہو بہت طاقتور ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کی وکلا خاندانوں میں شادیاں ہوئی ہیں۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ ہم نے خواتین کیلئے ہلپ لائن بنائی ہے اس پر متاثرہ خواتین رجوع کرسکتی ہیں، انھوں نے کہا کہ معاشرے کو متوازن بنانے کیلئے ضروری ہے کہ خواتین کو ان کے جائزہ حقوق تک رسائی میں مشکلات درپیش نہ ہوں۔