بیڈ منٹن، بیساکھی ریس کے گولڈ میڈلسٹ،آصف خان
ثاقب لقمان قریشی
نام: آصف خان
تعلیم: بی-اے
رہائش: ڈسٹرکٹ مردان، تحصیل تخت بھائی، پوسٹ آفس باتھیان
کھیل: بیڈمنٹن، اور بیساکھی ریس
اعزازات:
ا۔ بیڈمنٹن اور ایتھلیٹکس میں گولڈ میڈل اور ٹائٹل اپنے نام کر چکے ہیں۔
ب۔ چھبیسویں آل پاکستان سپورٹس فیسٹول (2018) میں سو میٹر کی ریس میں سلور میڈل
پ۔ستائیسویں آل پاکستان سپورٹس فیسٹول (2019) میں بیساکھی ریس میں گولڈ میڈل
ت۔ایمپکٹ گیمز مردان میں بیڈمنٹن کا ٹائٹل اپنے نام کیا
ٹ۔نیشنل ایبلٹی سپورٹس فیسٹول پشاور میں بیڈمنٹن کا فائنل اپنے نام کیا
ث۔ اٹھائیسویں آل پاکستان نیشنل گیمز میں بیڈمنٹن کا ٹائٹل اپنے نام کیا
ج۔ حال ہی میں ہونے والے سپیشل سپورٹس فیسٹول مردان دسمبر (2020) میں بیڈمنٹن کا فائنل اور بیساکھی ریس میں دوسرا نمبر حاصل کر چکےہیں۔
ادارہ: صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن
خاندانی پس منظر:
والد صاحب واپڈا میں فرائض سر انجام دیتے تھے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد زندگی نے ساتھ نہ دیا اور ایک سال بعد ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ خاندان چار بھائیوں پر مشتمل ہے۔ بڑے بھائی پاکستان آرمی سے منسلک ہیں، ایک بھائی سعودیہ میں ملازمت کر رہے ہیں، جبکہ سب سے چھوٹا بھائی گیارویں جماعت کا طالب علم ہے۔
آصف خان کی زمینی حقائق ڈاٹ کام سے خصوصی ملاقات کا احوال.
سوال: سوزوکی حادثے کا شکار کیسے ہوئے ؟
پیدائشی طور پر کسی قسم کی معذوری کا شکار نہیں تھے۔ایک حادثہ معذوری کا سبب بنا۔ شادی کی تقریب میں دوسرے گاؤں جانا ہوا۔راستے میں سات سالہ ننھے آصف کی سوزکی ٹریکٹر ٹرالی سے جا ٹکرائی۔اس حادثے کے نتیجے میں آصف کا ایک پاؤں کٹ گیا۔ جسکی وجہ سے آج یہ بیساکھی اور ویل چیئر کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں۔
سوال: حادثے کے بعد کا بچپن کن مشکلات کے ساتھ گزرا؟
حادثے سے پہلے کا بچپن زندگی سے بھر پور تھا۔ طرح طرح کی شیطانیاں کرنا، سارا سارا دن کھیلنا، کھیلتے کھیلتے گھر سے دور نکل جانا، لڑنا جھگڑنا، خوب مستیاں کرنا معمول تھا۔ لیکن اب سب کچھ ویسا نہ رہا۔ بیساکھیوں نے زندگی بڑی محدود کر دی تھی۔
سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کے سفر کو جاری رکھنا تھا۔ لڑکوں کے جس سکول میں آصف زیر تعلیم تھے وہ گاؤں سے خاصہ دور تھا۔ بیساکھیوں کے سہارے اتنا لمبا سفر طے کرنا بہت مشکل کام تھا۔گھر والے آصف کی تعلیم کے حوالے سے خاصے پریشان تھے۔ گھر کے نزدیک لڑکیوں کا ایک سکول تھا جہاں کے علم دوست اساتذہ کرام نے بچے کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے اسے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔ آصف کہتے ہیں کہ اس مقام پر اگر تعلیم کا سفر منقطع ہو جاتا تو شائد آصف آج اس مقام پر نہ ہوتے ۔
سوال: بچپن کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ بیان کریں؟
حادثے کے بعد آصف کیلئے دنیا محدود سی ہو کے رہ گئی تھی۔ اپنی چھوٹی سی دنیا کو خوب انجوائے کرنے کی کوشش کرتے۔ ہر طرح کے کھیل اور شیطانیاں کرنے کی کوشش کرتے۔ اکثر بیساکھیاں زمین پر رکھ کر درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک دن اسی کوشش کے دوران دو آدمیوں نے آصف کو درخت پر چڑھتے دیکھا تو کہنے لگے کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ معذور کی ایک رگ ذیادہ ہوتی ہے۔آصف کو یہ بات بہت بری لگی آصف سمجھتے ہیں کہ خصوصی بچوں کو عام بچوں کی طرح کھیلنے کودنے اور شیطانی کرنے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔
سوال: میٹرک کس سکول سے کیا؟ کیسے آیا جایا کرتے تھے؟
ہوش سنبھالنے کے بعد بیساکھیوں سے چلنا شروع کر دیا۔ سکول پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے۔ سکول دور ہونے کی وجہ سے آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اسلیئے کم سے کم جانے کی کوشش کیا کرتے۔ بچے سکول کا کام گھر لے آیا کرتے تھے۔ میٹرک گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول ہاتھیان سے کیا۔
سوال: کالج کی تعلیم مکمل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟
کالج گھر سے بہت دور شہر میں واقع تھا۔ جس کی وجہ سے آنے جانے کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ویگنوں اور بسوں میں رسائی کے فقدان کی وجہ سے چڑھنے اور اترنے میں بہت مشکل پیش آیا کرتی تھی۔
گرتے پڑتے دھکے کھاتے رہے لیکن تعلیم کے سفر کو منقطع نہیں ہونے دیا۔پولیٹکل سائنس میں دلچسپی رکھتے تھے اسی لیئے اسی میں بی اے کیا۔
سوال: کھیلوں میں کس عمر سے دلچسپی لینا شروع کی؟
آصف کہتے ہیں کہ کھیل کے معاملے میں گاؤں کے بچے شہروں میں رہنے والے بچوں سے کافی خوش نصیب ہوتے ہیں۔ گاؤں کی زندگی فطرت سے قریب اور محنت سے بھر پور ہوتی ہے۔ اسی لیئے گاؤں میں رہنے والے لوگ شہریوں سے ذیادہ مظبوط ثابت ہوتے ہیں۔
کھیلنے کودنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ جو کھیل، کھیل سکتے تھے اس میں بھر پور کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے اور جو نہیں بھی کھیل سکتے تھے انھیں کھیلنے کی کوشش کرتے تھے۔
سوال: کیا گاؤں میں رہنے والے بچے کے لیئے بیڈمٹن جیسا کھیل غیر معروف نہیں تھا؟
گاؤں کے بچوں کو بیڈمنٹن کھیلنے پر کیسے راضی کرتے تھے؟
کرکٹ، فٹ بال، ہاکی اور والی بال جیسے کھیل گاؤں میں شوق سے کھیلے جاتے تھے۔ لیکن ویل چیئر پر ہوتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی کھیل کھیلنا ممکن نہیں تھا۔ بیڈمنٹن ایسا کھیل تھا جو ویل چیئر پر باآسانی کھیلا جاسکتا تھا۔ اس شرط پر کرکٹ کھیلتے کہ میچ کے اختتام پر بچے ان کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلیں گے۔ اس طرح کرکٹ کے ہر میچ کے بعد بچے بیڈمنٹن کھیلنے کیلئے راضی ہو جایا کرتے تھے۔
سوال: کھیل کے دوران پیش آنے والا کوئی دلچسپ واقعہ بیان کریں؟
کھیل کے دوران مزیدار قسم کے واقعات کا پیش آنا معمول کی بات ہے۔ 2019 کے نیشنل ایبلٹی سپورٹس فیسٹیول کی بات ہے کہ اس میں ایک ایسے کھلاڑی نے شرکت کی جسکا دایاں ہاتھ نہیں تھا۔ کھلاڑی نہایت پروفیشنل تھا۔ سب لڑکوں نے اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسکی معذوری اوپر کی تھی جبکہ دوسرے کھلاڑیوں کی معذوری دھڑ سے نیچے کی تھی۔
آصف نے مسئلے کا یہ حل تجویز کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے جس کا نام نکل آیا وہ اس کھلاڑی کے ساتھ مقابلہ کرے گا اور شکست کی صورت میں شور شرابا نہیں کرے گا۔ اتفاق سے قرعہ اندازی میں آصف کا اپنا ہی نام نکل آیا۔ آصف نے ڈٹ کر کھلاڑی کا مقابلہ کیا اور کوشش کے بعد اسے شکست سے دوچار کیا۔
سوال: آپ کی کوچنگ کون کرتا ہے؟ بڑے میچز کی تیاری کیسے کرتے ہیں؟
کوچ کے خرچے برداشت نہیں کرسکتے۔ تمام کے تمام اعزازت اپنی محنت اور لگن سے جیتے ہیں۔آصف کہتے ہیں کہ اگر حکومت انھیں سپورٹ کرے تو یہ عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سوال: کیا کھیل اور ورزشں عام لوگوں کی طرح خصوصی افراد کیلئے بھی ضروری ہے؟
کھیل اور ورزشی؎ں انسانی صحت کیلئے بے حد ضروری ہے۔ خصوصی افراد کے معاملے میں انکی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ خصوصی افراد کو کھیل اور تفریح کے مواقعے کم ہی میسر آتے ہیں۔ کھیلوں اور ورزشوں کے ذریعے خصوصی افراد میں صحتمند رہنے کا رجحان فروغ پاسکتا ہے، بیماریوں سے بچ سکتے ہیں، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
سوال: خصوصی کھیلوں کے فروغ سے پاکستان کون سے فوائد سے مستفید ہوسکتا ہے؟
دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے، اس گاؤں میں ذات پات، رنگ نسل، جغرافیہ، جنس اور مذہب سے بالا تر ہو کر ہر انسان کے حقوق کو برابر تسلیم کیا جاتا ہے۔ خصوصی افراد کے کھیلوں کا فروغ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ خصوصی کھیلوں کے فروغ سے پاکستان اپنا پرامن اور روشن خیال چہرہ دنیا کو دکھا سکتا ہے۔
متوازن معاشرہ تمام طبقات کو برابر کے انسانی حقوق دینے سے ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔ وطن عزیز میں خصوصی افراد ملک کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ تین کڑوڑ افراد کو اس عمل کا حصہ بنائے بغیر ترقی کا حصول ناممکن ہے۔
سوال: کیا آپ سوشل ورک بھی کرتے ہیں؟ صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن کیا کام کرتی ہے؟
سوشل ورک کا بہت شوق ہے۔ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی خدمت کرنا اچھا لگتا ہے۔ صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن کے ساتھ کافی عرصہ سے منسلک ہیں۔ جس زمانے میں خیبر پختون خواہ میں لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑایا جا رہا تھا صیاد خان نہ صرف اسکول کھولا بلکہ کامیابی چلایا۔ صیاد کے پورے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہیں، بہت سے لوگوں کے قدم ڈگمگائے لیکن صیاد نے ہار نہ مانی۔ آج کل اس سکول میں چار سو سے زائد بچیاں زیر تعلیم ہیں اور یہ سکول گورنمنٹ چلا رہی ہے۔
صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن آگہی، تعلیم، صحت اور بہبود کے شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ ایس-ڈبلیو-او کے پلیٹ فارم سے خصوصی افراد میں ہزاروں کے حساب سے ویل چیئرز، بیساکھیاں، سفید چھڑیاں، سماعت کے آلات وغیرہ تقسیم کیئے جا چکے ہیں۔
ایس-ڈبلیو-او اندرون ملک اور بیرون ملک ہسپتالوں اور بحالی سینٹروں سے ہردم رابطے میں رہتا ہے۔ اگر کسی مریض کا علاج خیبر پختون خواہ میں ممکن ہو تو اس کا رابطہ صوبائی سینٹر سے کروا دیا جاتا ہے۔ اگر معاملہ پیچیدہ نوعیت کا ہو تو ملکی اور غیر ملکی سینٹرز سے مدد طلب کی جاتی ہے۔
خصوصی افراد اور انکے خاندان والوں کی کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔ معذوری کے ساتھ جینے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ کامیاب خصوصی افراد کی زندگی کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔
خصوصی افراد کے شناختی کارڈ، معذوری سرٹیفکیٹ، سکولوں میں داخلے اور سرکاری اداروں سے سہولیات کے حصول کیلئے ایک ٹیم بنا رکھی ہے۔ جو خصوصی افراد کو رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
سوال: آپ اب تک بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کیوں نہیں کر سکے؟
آصف اولمپکس میں شرکت کر کے ملک کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں۔ گولڈ میڈلز انکی کارکردگی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ انکا نام انٹرنیشنل ایونٹس کیلئے متعدد بار جاچکا ہے لیکن غریب خاندان اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اب تک یہ انٹرنیشنل ایونٹ کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔
سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟
نوکری کیلئے بہت کوششیں کر چکے ہیں لیکن ناکام رہے۔ نوکری کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ کھیل کو اپنی زندگی کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں جس کے ساتھ ساری عمر جڑا رہنا پسند کرتے ہیں۔
سوال: کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟
ہر چیز شوق سے کھا لیتے ہیں۔ دال سبزی اور چاول کھانا پسند ہیں۔
سوال: سپورٹس کے حوالے سے نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
خصوصی افراد اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکالیں۔ گراؤنڈ، کوچ، ٹرینر، کٹ اور کھیلنے کیلئے دوسرے خصوصی فرد کا انتظار نہ کریں، جہاں موقع ملتا ہے کھیلنے کی کوشش کریں۔ آپ دیہات میں رہتے ہوں یا شہر میں بھر پور زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ کھیل آپ کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بڑھانے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔