فوٹو: فائل
اسلام آباد(زمینی حقائق ڈا ٹ کام) امریکی میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق پاکستان میں لوگ سیاسی نوعیت کے مطالبے کرکے واپس لانے پر زور دیتے ہیں لیکن یہ معاملاقانونی نوعیت کا ہے بلکہ اس قدر پیچیدہ کہ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کہتی ہے کہ سزا معافی کی دو اپیلیں غائب ہو چکی ہیں۔
اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹرفوزیہ صدیقی نے سینیٹ میں بابر اعوان کے دعوے سے متعلق کہا کہ حکومت کے دعوؤں سے متعلق ان کے پاس کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ نے وضاحت کی کہ ہم نے رحم کی اپیل نہیں امریکی قوانین کے مطابق کمیوٹیٹشن پارڈن یعنی سزا معافی کی درخواست دی تھی، ان دونوں میں کچھ فرق ہے۔ یعنی سزا معافی کی درخواست کے مطابق جتنی سزا باقی رہ گئی ہے اس کو صدارتی اختیارات کے تحت معاف کیا جا سکتا ہے۔ لہذا یہ رحم کی اپیل نہیں تھی۔
ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے سزا معافی کی درخواست پر ماضی میں دو مرتبہ دستخط کیے ہیں، ایک مرتبہ صدر اوباما کے دور حکومت میں اور دوسری مرتبہ گذشتہ برس دسمبر میں سزا معافی کی درخواست دی گئی ہے۔
انھوں نے حکومت پاکستان پر الزام عائد کیا کہ دونوں مرتبہ حکومت نے ان کی رہائی کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات اور کوشش نہیں کی،
ڈاکٹر عافیہ کی سزا معافی (نہ کہ رحم کی اپیل) کی درخواست تیار کروانے کے لیے میں نے بہت سی رقم خرچ کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دسمبر میں عافیہ کے دستخط کے بعد حکومت نے مجھ سے یہ درخواست لیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس کو انفرادی طور پر بھجوائیں گی تو اس کی وہ اہمیت نہیں ہو گی جو بطور ملک حکومت کی طرف سے اس درخواست پر بھجوانے پر ہو گی۔ لہذا دستخط شدہ درخواست دے دی تھی۔
ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ میں نے حکومت سے رواں برس مارچ میں درخواست کے متعلق پوچھا تو مجھے جواب دیا گیا کہ ہم درخواست جمع کروا رہے ہیں، میں مہینوں ان سے مسلسل درخواست کے متعلق پوچھتی رہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔
ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق ان کے وکلا نے ہیوسٹن میں پاکستانی قونصلر جنرل سے رابطہ کیا تو اس وقت قونصلر جنرل نے بتایا کے پاکستانی سفارت خانے نے اس معافی کی درخواست کو جیل حکام کو بطور رحم کی اپیل بنا کر بھیج دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اراکین کو یہ علم ہی نہیں تھا دونوں درخواستوں میں کیا فرق ہے، یا پھر انھوں نے ایسا جان بوجھ کر کیا کیونکہ وہ عافیہ کو زندہ پاکستان نہیں لانا چاہتے، کیونکہ سزا کی معافی اور رحم کی درخواست کے مندرجات ہی مختلف ہوتے ہیں،ر درخواست جمع کروانے کا قانونی طریقہ کار ہی مختلف ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فوزیہ صدیقی نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس درخواست کو جمع کروائے بھی کئی ماہ گزر گئے اور گذشتہ ماہ 24 ستمبر کو جب میرا رابطہ قونصلر جنرل سے ہوا تو انھوں نے بتایا کہ امریکی جیل حکام کے مطابق وہ درخواست جیل وارڈن سے کہیں گم ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ‘مجھے سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں میں صرف یہ چاہتی تھی کہ اس بات کی تصدیق ہو جائے کہ وہ جس سے بات کر رہے ہیں وہ عافیہ ہی ہیں یا کوئی اور ہے، اس کے بات حکومت نے چند ایسی باتیں شیئر کیں جس سے تسلی بھی ہوئی اور کچھ سے تشویش بھی۔
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے بتایا کہ عافیہ صدیقی کے معاملے پر متعلقہ ڈویژن سے درخواست کی گئی ہے، معلومات موصول ہونے پر صحافیوں کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
یاد رہے ڈاکٹر عافیہ کو جولائی 2008 میں افغان پولیس نے کیمیائی اجزا اور ایسی تحریریں رکھنے پر گرفتار کیا تھا جن میں نیویارک پر حملے کا ذکر تھا ،عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔