سانحہ کارساز کے 13 برس، 177 افراد کی موت کا سراغ نہ مل سکا
کراچی(زمینی حقائق ڈاٹ کام) سانحہ کارساز کو 13 برس بیت گئے،تباہ کن دھماکوں کے ذمہ داران کو نہیں پکڑا جا سکا، سانحے میں ملوث افراد کا کوئی سراغ ملا نہ تفتیش میں کوئی پیش رفت سامنے آ سکی۔
آج سے13سال پہلے 18 اکتوبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیربھٹو کی وطن واپسی پر ہونے والے دھماکوں میں 177 افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔
متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں،پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کا اعزاز پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی جلا وطنی ختم کر کے 18 اکتوبر 2007 کو کراچی ائیر پورٹ پہنچیں تو ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔
عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لیے موجود تھا، بے نظیر بھٹو کو پلان کے تحت کراچی ائیر پورٹ سے بلاول ہاؤس جانا تھا لیکن جیالوں کے ٹھاٹھے مارتے سمندر نے مختصر سے فاصلے کو انتہائی طویل بنا دیا۔
جیالے ملک بھر سے سابق وزیرِ اعظم کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے تھے، بے نظیر بھٹو کا قافلہ شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر پہنچا تو ایک زور دار دھماکا ہوا.
حکومتی اداروں نے سانحے میں القاعدہ چیف فاہد محمد علی مسلم اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر بیت اللہ محسود کو ملوث قرار دیا جو بعد میں ڈرون حملوں میں مارا گیا۔
سانحہ کارساز پر تھانہ بہادرآباد میں 2 مقدمات درج ہوئے۔ ایک مقدمہ سرکار کی مدعیت اور دوسرا خود بے نظیر بھٹو کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا ۔
سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والا مقدمہ سی آئی ڈی منتقل ہونے کے بعد اے کلاس کرکے بند جبکہ بے نظیر بھٹو کی مدعیت میں درج ہوے والے مقدمے کو سی کلاس کردیا گیا۔