کہاں ہیں بلین ٹری؟ ہمیں کوئی درخت نظر نہیں آیا، چیف جسٹس
پشاور (ویب ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نےکہا ہے کہ کہتے ہیں بلین ٹری لگائے لیکن ہمیں کوئی درخت نظر نہیں آیا۔ آپ کے درخت کہاں پر ہیں۔ ہم شام کو آرہے تھے تو دھواں ہی دھواں تھا، آپ کہتے درخت لگائے ہیں یہاں تو شاہراہ کے گرد کوئی درخت نہیں ہے۔
یہ ریمارکس چیف جسٹس نے پشاور رجسٹری میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے ہیں کہ کہتے ہیں بلین ٹری لگائے لیکن ہمیں کوئی درخت نظر نہیں آیا، کورونا نہ ہوتا تو پھر ماحولیاتی آلودگی کے باعث ماسک لگانا پڑتا، ہم پشاور آئے یہاں اتنی گرد ہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے پشاور رجسٹری میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کی، عدالت میں ڈی جی ماحولیات، سیکرٹری ماحولیات، سیکرٹری صنعت اور ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ پیش ہوئے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے آفیسرز کام نہیں کررہے سب کو فارغ کردینا چاہیے۔اے سی میں بیٹھ کر خط لکھنا بابو کا کام ہے، یہ کام افسروں کا نہیں ہے۔ ہم پشاور آئے یہاں اتنی گرد ہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہے۔
ابھی تو کورونا کی وجہ سے ماسک لگاتے ہیں۔ کورونا نہ ہوتا تو پھر ماحولیاتی آلودگی کے باعث ماسک لگانا پڑتا۔ پشاور میں تو اتنی فیکٹریاں بھی نہیں ہیں، اگر خیبرپختونخواہ میں پشاور کا یہ حال ہے تو دوسرے شہروں کا کیا حال ہوگا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بس دھواں ہی دھواں ہے۔سیکرٹری سفید کپڑوں میں ایسے ہیں کہ لگتا ہی نہیں یہ فیلڈ میں کام کرتے ہوں گے۔ تمام افسروں کو فارغ کیا جائے اور کام کے بندے لائے جائیں۔
سپریم کورٹ نے چار ہفتوں میں متعلقہ محکموں سے ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلئے اقدامات سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔