بابری مسجد کیس میں تمام ملزما ن بری ہونے پر پاکستان کا ردعمل
فوٹو: فائل
اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام )پاکستان نے بھارت میں بابری مسجد شہید کرنے والے ملزمان کی رہائی کے بھارتی عدالتی فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے ہندوتوا سے متاثر بھارتی عدلیہ انصاف کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
بابری مسجد سے متعلق لکھنو کی خصوصی عدالت کے فیصلہ کے ردعمل میں ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نام نہاد جمہوریت میں اں صاف کی علامت ہوتی تو سرعام مجرمانہ فعل پر فخر کرنے والوں کو آزاد نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
بھارتی عدالت کے اس فیصلے سے دنیا پر ثابت ہوگیا کہ ہندوتوا سے متاثر بھارتی عدلیہ انصاف کرنے میں ناکام ہوچکی ، جبکہ بھارتی جنتا پارٹی کی طرف سے پوری پلاننگ کے تحت ہندو رائے عامہ کو بھڑکانے کے لیے رتھ یاترا کی گئی تھی۔
بابری مسجد شہید کرنے کے نتیجے میں بی جے پی کی زیرقیادت فرقہ وارانہ تشدد ہوا ، جس تشدد کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک بھی ہوئے ۔
واضح رہے کہ آج بھارتی عدالت نے بابری مسجد کی شہادت کے مقدمے میں تمام 32 ملزمان کو بری کردیا ہے.
بھارتی میڈیا کے مطابق لکھنو کی عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی سمیت دیگربی جے پی رہنماؤں سمیت تمام 32 ملزمان کو کیس سے بری کردیا ہے۔
تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا فیصلہ لکھنو کی خصوصی عدالت نے سنایا ہے عدالت نے کہا کہ بابری مسجد گرانے کا فیصلہ اچانک ہوا، اس حوالے سے پہلے سے کی جانے والی کسی بھی منصوبہ بندی کے شواہد نہیں ملے ، لہٰذا اس مقدمے کے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
سماعت کے موقع پر مقدمے کے 20سے زائد ملزمان موجود تھے جبکہ 6غیر حاضر تھے۔واضح رہے کہ بھارت میں شہید کی جانے والی تاریخی بابری مسجد کا آج 28 سال بعد فیصلہ سنایا گیا ، لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا ۔
اس حوالے سے غیر ملکی خبر ایجنسی نے بتایا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے متعلق بھارت میں لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے فیصلہ سنایا ، مزکورہ کیس کا فیصلہ 2 سال میں سنایا جانا تھا لیکن خصوصی عدالت اس سلسلے میں بار بار توسیع لیتی رہی ، جہاں بھارتی سپریم کورٹ نے آخری توسیع 30 ستمبر تک دی تھی۔
عدالتی فیصلہ اس موقف کی بنیاد پر سنایا گیا ہے کہ یہ کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی اور مسجد کو شہید کرنے کا بڑے جرم اور اس میں شامل افراد کو نظر انداز کردیاگیا ۔
تاریخی بابری مسجد کے 2 مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے ، ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نومبر میں سناتے ہوئے یہ قرار دیا کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد تھی وہ مندر کی زمین تھی ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر رام کی جنم بھومی تھی اور بابری مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں، بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہندو اسٹرکچر پر تعمیر کی گئی،چیف جسٹس رانجن گنگوئی نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔
اسی مقام پر 2 مہینے قبل بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک تقریب میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا تھا۔ جب کہ دوسرا مقدمہ بابری مسجد کے انہدام کا تھا جس کا فیصلہ آج سنایا گیا اور بھارتی عدالت نے بابری مسجد کی شہادت کے مقدمے میں تمام 32 ملزمان کو بری کردیا۔
عدالتی فیصلے میں واقعے کی ویڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم تصاویر کے نیگٹو پیش نہیں کرسکی جب کہ ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔
بابر ی مسجد کی شہادت اور تاریخ
بابری مسجد 491 سال قدیم تھی اور مسجد کی ملکیت کا تنازع پہلی بار 1853ء میں اٹھا اور اسی سال فسادات ہوئے، 1859ء میں برطانوی راج میں باڑ لگا کر مسجد اور مندر کو الگ کیا گیا۔
پھر دسمبر 1949ء میں ہندوؤں نے بت لاکر مسجد کے اندر رکھ دیے ، 1949ء ہی میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے وزیراعلیٰ یوپی گووند پنت کو مسجد سے مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا۔
ستمبر1992ء میں جب مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کے ردعمل میں پھوٹ پڑنے والے مسلم کش فسادات میں پورے بھارت میں دو ہزار سے تین ہزار افراد مارے گئے۔ اس کے بعد ممبئی کے بم دھماکوں میں 250 افراد اپنی جانوں سے گئے۔ 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات کی بدامنی میں ایک ہزار افراد قتل ہوئے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔