نواز شریف اور آصف علی زرداری کا اے پی سی سے خطاب
اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام) سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس سے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جب کہ تاحال پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اسلام آباد میں اپوزیشن کی اے پی سی جاری ہے۔
اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں پاکستان پیپلزپارٹی کی زیر قیادت ہونے والی اس کثیر الجماعتی کانفرنس میں پی پی رہنما شیری رحمٰن کے مطابق 12 جماعتوں کے نمائندے شریک ہیں، تاہم اپوزیشن میں موجود جماعت اسلامی نے اس کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت سے پہلے ہی انکار کردیا تھا۔
کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم)، جمعیت اہلحدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما شریک ہیں۔
سابق صدر آصف زرداری نے ابتدائی خطاب کرتے ہوئے سارے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت کے لیے دعا کرنے کے ساتھ کہا کہ میرے خیال میں یہ اے پی سی بہت پہلے ہونی چاہیے تھی۔
حکومت کو نکال کر جمہوریت بحال کرینگے،آصف زرداری
آصف علی زرداری نے کہا جب سے ہم سیاست میں ہیں میڈیا پر اس طرح کی پابندیاں نہیں دیکھیں، چاہے کتنی ہی پابندیاں لگائی جائیں، لوگ ہمیں سن رہے ہیں، حکومت اے پی سی کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے یہی ہماری کامیابی ہے۔
سابق صدر نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور پھر ہم آہنگی کے ذریعے مشرف کو بھیجا، 18 ویں ترمیم کے گرد ایک دیوار ہے جس سے کوئی بھی آئین کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
آصف زرداری نے کہا کہ ہم صرف اس حکومت کو نکالنے نہیں آئے بلکہ اس حکومت کو نکال کر اور جمہوریت بحال کر کے رہیں گے، ہم نے پاکستان بچانا ہے اور ہم ضرور جیتیں گے۔
مریم نواز کو قوم کی بیٹی کہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں انہوں نے کتنی تکلیف سہی ہوگی کیونکہ میری بہن اور بیوی نے بھی یہ سب کچھ دیکھا تھا، تاہم ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے مقصد کے لیے لڑتے رہیں گے۔
سلیکٹڈ وزیراعظم کی سوچ سمجھیں ایک میجر کی سوچ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ 1973 سے ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، مولانا مودودی اور اس زمانے کے لیڈروں سے زیادہ ہوشیار ہیں ج
آصف علی زرداری نے کہا کہ مجھے لگتا ہے اس ‘اے پی سی کے بعد پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا لیکن مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست ہے کہ آپ ملنے آئیے گا، اس ملاقات کا مجھے انتظار رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ میری اے پی سی کے دوستوں کو ہدایت اور گزارش ہوگی کہ وہ ایسا لائحہ عمل طے کریں جس سے ہم جمہوریت کو مضبوط کرسکیں اور اسے آگے بڑھا سکیں کیونکہ پہلی بنیاد ہی جمہوریت ہے۔
ہم پورے پاکستان کے ساتھ حکومت شیئر کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنے دوستوں کو زیادہ ترجیح دی ہے، دوستوں کا جمہوریت کے لیے مشورہ دینا قبول ہے۔
الیکشن سے پہلے طے کر لیا جاتا ہے کسے جتانا ہے، نواز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اے پی سی سے ورچوئل خطاب میں کہا میں وطن سے دور ہوتے ہوئے جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن مشکلات سے دوچار ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ابھی آصف زرداری نے جو ٹرینڈ سیٹ کیا ہے اسی کو آگے لیکر چلنا ہے، آپ سب جانتے ہیں 73 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اور اس کی وجہ صرف ایک ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں، ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مصلحت چھوڑ کر فیصلے کریں اور اب وقت آ گیاہے کہ ہم مل کر سرگرم ہوں۔
نواز شریف نے کہا پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنہیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔
اگر ہم آج فیصلے نہیں کریں گے تو کب کریں گے، میں مولانا فضل الرحمٰن کی سوچ سے پوری طرح متفق ہوں کہ ہمیں رسمی اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہوگا ورنہ قوم کو بہت مایوسی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے پر ہے لیکن جب جمہوریت کی اس بنیاد پر ضرب لگتی ہے اور ووٹ کی عزت کو پامال کردیا جاتا ہے تو سارا جمہوری عمل بالکل بےمعنیٰ اور جعلی ہوکر رہ جاتا ہے.
نواز شریف نے کہا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے اور عوام کا مینڈیٹ کس طرح چوری کیا جاتا ہے۔
جب عوام کی مقدس امانت میں خیانت کی جاتی اور انتخابی عمل سے پہلے یہ طے کرلیا جاتا کہ کسے جتانا اور ہرانا ہے اور انتخابات میں دھاندلی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ میں نکال دی جاتی ہے.
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کو اس طرح کے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا ہے، کبھی کوئی نمائندہ حکومت بن بھی جائے تو اسے ہر طرح کی سازش کے ذریعے سے پہلے بے اثر اور پھر فارغ کردیا جاتا ہے.
اس سے یہ بھی پروا نہیں کی جاتی کہ اس سے ریاستی ڈھانچہ کمزور ہوگا، اقوام عالم میں جگ ہنسائی ہوئی اور عوام کا ریاستی اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
کُل جماعتی کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور مریم نواز سمیت دیگر جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
جاری ہے