سیالکوٹ کے بہادر خصوصی استاد محمد عباس احمد کا انٹرویو

0

ثاقب لقمان قریشی

تعلیم : ایم اے۔ اسلامیات، ایم –اے اردو ، بی ایڈ،ایم ایڈ ہے جبکہ ایم فل جاری ہے
رہائش: سیالکوٹ
شعبہ : گورنمنٹ محکمہ ایجو کیشن میں بطور استاد فرائض انجام دے رہے ہیں
خاندانی پس منظر:
چار بھائی اور سات بہنیں ہیں۔ تمام بہنیں اور ایک بھائی شادی شدہ اپنے اپنے گھرو ں میں آباد ہیں۔ چھوٹے دو بھائیوں کی تعلیم میڑک جبکہ ایک نے صرف پرائمری تک ہی کوشش کی تھی۔ والد صاحب مزدوری کے پیشہ سے وابستہ رہے۔
محمد عباس احمد سے زمینی حقائق ڈاٹ کام کی ایک خصوصی نشست ہوئی جس کا احوال کچھ یوں ہے.

سوال: ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ حادثے کا شکار کیسے ہوئے؟

میٹرک تک تعلیم گوجرانوالہ میں حاصل کی۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اپنے ہی گاؤں کی مسجد سےجاری رکھی۔ میٹرک کے بعد کاروباری زندگی کا آغاز کیا۔ 2003 میں کام کے دوران ہی کمر پر چوٹ لگی جس کی وجہ سے سروسز ہسپتال سے کمر کا آپریشن کرانا پڑا۔ یہی چوٹ اور آپریشن میری مستقل معذوری کا سبب بن گیا۔

سوال: ڈاکٹرز کی لاعلمی کس طرح مستقل معذوری کا سبب بنی؟

عباس کہتے ہیں وہ اور انکے گھر والے حرام مغز کی چوٹ کے حوالے سے ناواقف تھے، ڈاکٹر صاحبان نے بھی آپریشن کے بعد گھر میں آرام کرنے کا کہہ کر ہسپتال سے فارغ کر دیا۔ اس کےبعد کیا تھا پنجابی ٹوٹکے اور گھریلو علاج شروع ہو گئے مگر سب بےسود رہا اور ٹانگوں میں حرکت نہ آ سکی۔ مرض کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مستقل معذوری کا شکار ہو گئے۔

سوال: خصوصی افراد کو ایک دوسرے کیلئے بہترین معالج کیوں قرار دیتے ہیں؟

جواب ملا کہ ان کا خاندان کچھ مجبوریوں کی وجہ سے گوجرانوالہ سے سیالکوٹ منتقل ہوگیا۔ گھر میں سارا دن چارپائی پر پڑے رہنے سے جسم پر زخم ہونا شروع ہو گئے جن کی علاج اور تکلیف مصیبت بن گئی۔ سیالکوٹ کے بہت ہسپتالوں سے علاج کروایا گیا، بہت سے ڈاکٹروں سے رائے لی گئی مگر سب بے سود رہا۔ اس سارے عمل کے دوران بہت سے خصوصی افراد سے دوستی ہوگئی، معذوری کے علاج، احتیاط اور بہتری میں سب سے زیادہ معلومات براہ راست افراد باہم معذوری سے ملی۔یہ لوگ اپنے آپ میں ایک تجربہ کار معالج، سرجن اور کونسلر تھے۔

سوال: زندگی کی دوڑ میں واپس کیسے آئے؟

ریڈیو سننے کا بہت شوق تھا اسی دوران ریڈیو پر ایک ماہر نفسیات (عبدالشکور صاحب ) کا پروگرام سنا اور پھر باقاعدگی سے سننے لگے۔ عبد الشکور صاحب کی باتوں نے بہت متاثر ہوئے ، اسطرح جینے کی امنگ پیدا ہوئی ۔ عبد الشکور صاحب سے اتنے متاثر ہوئے کہ ایک روز ملاقات کا وقت لیا۔
اتنے رحم دل کہ ملنے کیلئے خود عباس کے گھر آن پہنچے ۔ شکور صاحب نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اور انکے مزید تعلیمی اخراجات اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا۔ اسی دوران انھوں نے موبائل رپیئرنگ کی دوکان بھی شروع کر لی۔ دوکان پر ایزی لوڈ، موبائل رپیئرنگ اور ٹکی ٹافی بیچنے کے ساتھ ساتھ سارا دن کتابیں پڑھتے رہتے۔

سوال: دکان پر رہتے ہوئے تعلیم کیسے حاصل کی؟

عباس احمد کہتے ہیں کہ معذوری کے بعد انکی زندگی میں والدین کے بعد سب سے اہم کردار پروفیسر قیصر فدا کا ہے۔ جنھوں نے انھیں ایف۔اے اور بی۔اے کی چار سالہ تعلیم موبائل پر مکمل کروائی۔
پروفیسر قیصر فدا صاحب اگرچہ خود بھی شعبہ تدریس سے وابستہ رہےہیں۔ انکی کی تصانیف گریڈ اول سے بی اے تک کتب بھی مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔ اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود پروفیسر صاحب چار سال تک (ایف اے سے بی اے تک) روزانہ رات کو 10 بجے سے 12 بجے تک عباس کو موبائل فون پر کال کرکے تعلیم دیتے تھے۔ ان کا دیا ہوا سبق دن پھر پڑھتے رہتے ۔ رات کو موبائل فون پر کال کر کے دن بھر کا تمام سبق سنا دیتےاور اگلے دن کا سبق لے لیتے ۔اس طرح وضاحت اور تشریح ہمارا (استاد اور شاگرد کا ) معمولِ زندگی بن گیا۔

پروفیسر قیصر فدا صاحب ایک فرشتہ بن کر انکی زندگی میں آئے جنہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تدریس کی طرف مائل کیا۔ حیران کن بات یہ ہے جو ہستی چار سال سے تعلیم دے رہی عباس ان سے کبھی نہیں ملے تھے اور نہ ہی موبائل فون کے علاوہ کوئی اور جان پہچان تھی۔ لیکن موبائل پر تدریس نے انھیں مضبوط رشتے میں باندھ دیا تھا۔

سوال: سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

بی اے کے بعد اپنے علاقے کے مشہور معروف سکول (لرننگ زون سکول سسٹم ) میں تدریس شروع کر دی۔ اس سکول کے مالک ماہر نفسیات عبد الشکور صاحب ہی تھے جن کی شفقت سے انھوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ سکول میں تدریس کے ساتھ ساتھ ایم اے اسلامیات میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی کی تعلیم جاری رکھی۔ اسی دوران بی ایڈ بھی مکمل کیا۔ بعد میں ایم اے اردو اور ایم ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ پرائیویٹ سکول میں تدریس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ ملازمت کے حصول کے لیے کوشش کرتا رہا جو بالآخر چار سال بعد کامیابی ملی اور 2017 میں گورنمنٹ محکمہ ایجوکیشن میں تدریس کی ملازمت شروع کر دی۔

سوال: نوکری کیلئے دوسرے شہر کیسے آیا جایا کرتے تھے؟

جوائنگ دوسرے شہر میں ہوئی۔ روز اتنا لمبا سفر کسی چیلنج سے کم نہ تھا ۔ چھوٹے بھائی نے ساتھ دیینے کا فیصلہ کیا اور تقریباً دو سال تک موٹر سائیکل پر یہ ڈیوٹی سر انجام دیتا رہا۔ عباس نے ہمت کر کے تین پہیوں والی موڑ سائیکل بنوا لی اور خود اکیلا دوسرے شہر میں جانے لگا۔ خدا کا کرنا ہوا کہ کچھ ہی عرصہ بعد اپنے گاؤں میں ٹرانسفر ہوگئی۔

سوال: سوشل ورک کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟

اپنی زندگی میں اس حادثے کے بعد انتہائی مشکل وقت گزرنا پڑا ۔ اس لیے دل میں ایک جذبہ ابھرا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو اپنے علاقے کے معذور لوگوں کے لیے کام کروں گا۔ جذبہ جنون کی حد تک بڑھتا گیا عباس نے ایک نابینا خاتون کے ساتھ سے کام کر سوشل ورک کا آغاز کیا۔ دو سال میں اپنے گردو نواح سے تقریباً چار سو خاندانوں سے ملا قات کی اور ان گھروں میں موجود مختلف معذوریوں کے حامل افراد اور ان کے والدین کو آگاہی دینے کی کوشش کی۔ جو لوگ گھروں میں قید ہو کر زندگی گزار رہے تھے اور ان گھروں سے باہر زندگی کی رونقیں دیکھنے کا حوصلہ دیا۔ خدا کے فضل سے بہت سے لوگوں کو جینے کی نئی امنگ دینے میں کامیاب رہا۔

مختلف معذوریوں کے حامل افراد سے مسلسل رابطے کیے اور ہر کسی سے معذوری کے حوالے سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جو لوگ معذوری کے ساتھ زندگی کو بہتر انداز سے گزار رہے ہیں ان سے زندگی کو بہتر بنانے کی تجاویز بھی لیں اور اس طرح اپنے علاقے کے لوگوں کی کونسلنگ اور ٹریننگ کرنا شروع کر دی۔
اس جدوجہد کا فائدہ یہ ہوا کہ مختصر سے عرصے میں آگہی عام ہوئی اور معذور اور معذوری سے نفرت کو ختم کرنے میں مدد ملی۔

سوال: مشاغل کیا ہیں اور فارغ وقت کیسے گزارتے ہیں؟

فارغ وقت میں مطالعہ اور ریسرچ کرنا پسند کرتےہیں۔ خاص طور پر معذوری کے حامل افراد کے متعلق جاننااور زندگی کی بہتر بنانے کے منصوبوں کی آگاہی حاصل کرنا ہے۔ اسکے علاوہ انٹر نیٹ پر مختلف تخلیقی و تعمیری سرگرمیوں سے متعلق کالم، اخبارات، کتب پڑھناور ویڈیوز دیکھنا بھی پسندہے۔

سوال: خصوصی افراد کی شادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟

افراد باہم معذوری کی شادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان افراد کا غیر ہنر مند ہونا ہے۔ جس میں خصوصی افراد بذاتِ خود اور ان کے ساتھ ساتھ والدین بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ ایسے بچوں کے لیے مناسب کاروبار کا انتظام کر کے ان کو خود کفیل بننے میں تعاون کریں۔

عباس کہتے ہیں کہ اگرمعذوری کے حامل افراد کو اگر معذوری کے لحاظ سے مناسب روزگار کا بندوبست کر کے دیا جائے تو یہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ کامیابی سے کاروبار کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے کاروبار کے لیے وقت عام عوام کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے ایسے افراد بہت جلد معاشی آسودگی حاصل کر سکتے ہیں۔

سوال: خصوصی افراد کے نام پیغام؟

معذور افراد کو عباس یہی مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ موبائل کے اس جدید دور میں فضول قسم کی سرگرمیوں میں وقت برباد کرنے کی بجائے اپنی معذوری کے متعلق آگاہی حاصل کر یں۔ فیس بک۔ واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع پر گروپ جوائن کریں۔ جو لوگ معذوری کے ساتھ بہتر زندگی گزار رہے ہیں ان سے دوستی کریں اور ان کی ذاتی تجربات سے سیکھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو آسان بنائیں اور کسی نہ کسی ہنر میں اپنے آپ کو مصروف کریں تاکہ معاشی طور پر خود کفیل ہو کر با وقار زندگی گزاریں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.