راولپنڈ ی،سلطان دا کھو، انجن ، باڈی پارٹس سمیت ہرپرزہ دستیاب

0

فوٹو: محمد فیصل راجپوت، زمینی حقائق ڈاٹ کام

راولپنڈی(محبوب الرحمان تنولی)چوری ہونے والی گاڑی چند گھنٹوں میں سپیئر پارٹس بن جاتی ہے اور راولپنڈی ڈویژن میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ ،سلطان کا کھوہ ،ہے، جہاں سارا مال سمگلنگ سپیئر پارٹس کا نہیں ہے لیکن کابلی کے نام پر بکنے والے سپیئر پارٹس یقینا بیرون ملک سے آئی گاڑیوں کے ہی ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے جب زمینی حقائق ڈاٹ کیلئے تحقیق اور مارکیٹ میں بیٹھے سپلائرز سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو بڑے اور کروڑوں کاسامان لے کر بیٹھے ہوئے تاجروں نے اس پر بات کرنے سے بھی انکار کردیا، بعض کاکہنا تھا کہ اگر سمگلنگ کا مال ہے تو میڈیا کو کیا مسلہ ہے حکومت موجود ہے معاملات دیکھنے کیلئے۔

، سلطان دا کھو ، گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی بہت بڑی منڈی ہے جہاں دکانوں اور گوداموں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے ، سلطان دا کھو ، اصغر مال چوک، ایئر پورٹ روڈ،کمیٹی چوک ، چاہ سلطان کے درمیان پھیلا ہوا ایک بہت بڑا کارروباری علاقہ ہے جس میں کسی بھی گاڑی کاکوئی بھی پرزہ دستیاب ہوتاہے۔

سپیئر پارٹس ڈیلرز اور دکانداروں نے خریداروں کی سہولت کیلئے ، سمگل شدہ پارٹس جسے وہ کابلی کہتے ہیں، چائنہ اور لوکل میں تقسیم کیا ہوا ہے جس کی جتنی استطاعت ہے وہ اس کے مطابق خریداری کرلیتا ہے ، ان سپیئر پارٹس کی قیمتوں کا تعین کون کرتا ہے کبھی حکومتوں کو اس بات سے دلچسبی نہیں رہی ۔

سپیئر پارٹس کی شاپس پر آدھی آدھی امپورٹڈ گاڑیاں ایسے رکھی گئی ہیں جیسے آدھی گاڑی کاٹ کر ڈسپلے میں رکھی دی گئی ہو۔حکومت اور متعلقہ ادارے یہاں ان سپیئر پارٹس کی موجودگی کے بارے میں پوچھنے سے بھی کتراتے ہیں کیوں کہ انھیں وہاں موجود تاجروں کے اتحاد اور ردعمل سے کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

عموماً ٹرانسپورٹ طبقہ میں یہ بات مشہور ہے کہ سلطان دا کھو سے گاڑیوں کا کام باقی مارکیٹس کی بدولت سستا ہوتاہے اور کسی بھی گاڑی کا ہر پرزہ یہاں سے مل جاتاہے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے دور دور سے ، سلطان دا کھو ، آنے والے تنقید کرتے ہوئے بھی واپس لوٹتے ہیں کہ ، سلطان دا کھو ، کی قیمتیں بہت زیادہ ہے۔

کارو باری طبقہ کے ساتھ ساتھ یہاں ملازمت کرنے والے مکینکس، خرادیئے، پوشش میکرز، ڈیکوریشن کرنے والے،الیکٹریشنز اور گاڑیوں کی مرمت سے واپستہ ہزاروں کی افرادی قوت کو روزگار بھی میسر ہے، ایسے ہی محنت کرکے روزی کمانے والے ایک مکینک بلال نے بتا یا کہ وہ 15سال سے یہ کام کررہا ہے ۔

بلال جو کہ سیف آٹوز پر مزدوری کرنے والا بہت محنتی مکینک ہے اور اس کی خوش اخلاقی کی باعث دور دور سے جو ایک بار اس ورکشاپ پر آ جائے دوبارہ ادھر کا ہی رخ کرتاہے، بلال کا کہنا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کا رہائشی ہے لیکن آبائی علاقے میں بہت کم جاتے ہیں اور وہ راولپنڈی کے ہی رہائشی ہو کر رہ گئے ہیں۔

امیر خان

سلطان دا کھو، میں ایک سپیئر پارٹس کی بڑی شاپ جس کے ساتھ ورکشاپ بھی ہے کے مالک امیر خان نے بتا یا کہ یہ کارروبار میرا بیٹا سنبھالتا ہے اور میری خود ایبٹ آباد میں آئس کریم فیکٹری ہے، انھوں نے بتایا کہ سلطان دا کھو ، مارکیٹ پاکستان بننے سے بھی پہلے کی ہے لیکن تب یہ مارکیٹ چھوٹی اور کھپت بھی کم تھی۔

سلطان دا کھو، جانے والے شہری اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ گاڑیوں پر چھوٹے نشانات، وائپر، ربڑیں، سیلیں،اور ڈیکوریشن کا سامان چلتے پھرتے پھیری والوں سے بھی کرا سکتے ہیں، وہ کام جو جڑواں شہروں کی گاڑیوں کی بڑی مارکیٹوں میں بھی نہیں ہوتے یا گاڑیوں کی یہ چھوٹی موٹی چیزیں دستیاب نہیں ہوتیں ، سلطان دا کھو، میں عام پھیری والے بھی کردیتے ہیں۔

جہلم سے گاڑی ٹھیک کروانے سلطان دا کھو، آنے والے ایک شخص دلاور نے بتایا کہ سلطان دا کھو ، آنے والوں کی مارکیٹ سے واقفیت بہت ضروری ہے ورنہ یہاں بیٹھے کاروباری ذہن والے گاہک کو دیکھ پر پہچان جاتے ہیں کہ وہ اس سے کتنے پیسے نکلوا سکتے ہیں،مکینک گاڑی کھولے تو جس پرزے پر اس کی نظر پڑے کہتا ہے یہ فارغ ہو چکاہے۔

سلطان دا کھو، جتنی بڑی مارکیٹ ہے اتنے ہی بڑے مسائل کا بھی شکار ہے،جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، نکاسی آب کیلئے بنے نالے کو دکانداروں اور گاڑیوں کے کام کرنے والوں نے لفافے اور گند پھینک کر بھرا ہوا ہے، سلطا ن دا کھو، میں سڑکیں تنگ اور پارکنگ نہ ملنے کے باعث گھنٹوں ٹریفک بھی جام رہتی ہے۔

گاڑیوں میں ٹیپ اور آڈیو سسٹم لگانے والی ایک دکان کے کاونٹر پر کھڑے شخص کاکہنا تھا کہ سلطان دا کھو ، میں کام کروانا ہو تو پہلے پارکنگ ڈھونڈیں پھر گاڑی کاکام کروائیں، جو لوگ ویسے گاڑی کھڑی کرکے مارکیٹ میں گم ہو جاتے ہیں ان کی وجہ سے سیکڑوں دیگر لوگ متاثر ہوتے ہیں،اس ساری کھپ کے باوجود سلطان دا کھو ، میں ٹریفک پولیس کہیں نظر آتی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.