برطانیہ 47 سال بعد یورپی یونین سے الگ ہو گیا

0

فوٹو : فائل

برسلز(ویب ڈیسک) گزشتہ رات 11 بجے برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ چلنے کا 47 سالہ سفر بھی اختتام کو پہنچا ہے.

یورپی پارلیمنٹ بلڈنگ سے برطانیہ کا یونین جیک پرچم اتار دیا گیا جب کہ برطانوی پرچم کی جگہ 12 ستاروں والا یورپی یونین کا پرچم لہرا دیا گیا، ایک ستارے کی خالی جگہ ایک اور ملک لے لے گا ۔

برطانیہ میں 4 سال کے بحث و مباحثوں کے بعد بریگزٹ کا سفر ختم ہو گیا۔ لندن میں بریگزٹ کے حامی اور مخالفین پارلیمنٹ اسکوائر پر ایک تقریب میں جمع ہوئے جہاں خواتین اور بچے بھی شریک تھے۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ اب برطانیہ میں نئے دور کا سورج طلوع ہوگا، زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور ایک نئے دور کا آغاز ہے، آج سے برطانیہ عبوری دور میں داخل ہوجائے گا جس کا اختتام 31 دسمبر کو ہوگا۔

یاد رہے کہ برطانیہ کے انخلا کے بعد یورپی یونین کے ملکوں کی تعداد 27 رہ جائے گی تاہم برطانیہ میں دسمبر 2020 تک یورپی یونین کے قوانین ہی لاگو رہیں گے۔

برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کی 4 سال کی بحث کے دوران 3 وزراء اعظم کی تبدیلی اور 2 عام انتخابات کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی ممکن ہوسکی ہے۔

یاد رہے قبل بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی پارلیمنٹ میں مباحثے کے بعد بریگزٹ معاہدے کی منظوری کے لیے ووٹنگ ہوئی جس کے حق میں 621 اور مخالفت میں صرف 49 اراکین نے ووٹ دیا تھا۔

بریگزٹ معاہدے کی ووٹنگ کے دوران 13 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ نہیں دیا اور ووٹنگ کے عمل کے بعد برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 73 اراکین کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جہاں روایتی گیت بھی گائے گئے تھے۔

بریگزٹ کی تفصیلات

برطانوی دارالعوام نے 10 جنوری کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری دی تھی جس کے تحت برطانیہ 31 جنوری کو یورپی یونین سے الگ ہونے کے امکانات واضح ہوگئے تھے، دارالعوام میں رائے شماری کے دوران بریگزٹ معاہدے کی حمایت میں 330 اور مخالفت میں 231 ووٹ ڈالے گئے۔

دارالامرا سے 23 جنوری کو بل منظور ہوا تھا اور اسی روز ملکہ ایلزبیتھ نے بل پر دستخط کردیے تھے جو قانون بن گیا تھا جس کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہوگئی تھیں۔

26 جون 2016 کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ کو کامیاب بنایا تھا تاہم یورپی یونین سے کس طرح نکلا جائے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی تھی کہ بغیر معاہدے، یونین کو چھوڑنے کا ڈر خوف برطانوی عوام اور سیاستدانوں کو ستانے لگا تھا۔

بریگزٹ کا معاملہ کئی برس سے زیر بحث تھا اور بریگزٹ کی منظوری میں ناکامی پر برطانوی وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا تھا، جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا.
تھریسامے کوشدید مخالفت کے بعد سے مشکلات کا سامنا تھا اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کرتی رہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

تھریسا مے نے گزشتہ برس 24 مئی 2019 کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

23 جولائی2019 کو برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن اگلے وزیر اعظم کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے آخری مرحلے میں کنزریٹو پارٹی کے قائد اور برطانیہ کے اگلے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔

بورس جانسن کو بھی لیبر پارٹی کے اکثریتی ایوان میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بریگزٹ کے حق میں قانون منظور نہ کروا سکے تھے جس کے بعد انہوں نے نئے انتخابات کی تجویز پیش کی جس کو اپوزیشن جماعت نے تسلیم کیا اور یوں دسمبر 2019 میں برطانیہ میں پھر انتخابات ہوئے۔

انتخابات میں بورس جانسن کو اکثریت حاصل ہوئی اور جنوری میں ہی معاملہ پارلیمنٹ میں آیا جہاں سے باآسانی بل منظور ہوا اور ملکہ ایلزبیتھ کے دستخط کے بعد بریگزٹ کا بل باقاعدہ طور پر قانون بن گیا۔

برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.