طاقتوروں کیساتھ ملنے والوں کے گناہ معاف کرنے کیلئے این آر او پلس دیا گیا
فوٹو : این این آئی
اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیراعظم یا طاقتوروں کے ساتھ ملنے والوں کے گناہ معاف کرانے کے لئے نیب آرڈیننس میں ترامیم کی گئیں،نیب ترمیمی آرڈیننس مدر آف قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او)ہے۔
ان خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ جب آصف زرداری نے کہاکہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے تو کہا گيا ہم این آر او مانگتے ہیں.
انھوں نے کہا کہ اب نیب آرڈیننس لاکر حکومت نے اپنے ساتھیوں کو این آر او پلس دے دیا ہے، وزیراعظم نے اپنےساتھیوں کو بچانے کے لیے نیب میں ترامیم متعارف کرائیں، نیب اب صرف 2 سیاسی جماعتوں کا احتساب کرسکے گی۔
پی پی رہنما کا کہنا تھاکہ یوٹرن کی حد ہوگئی، عمران خان کا فائنل یوٹرن نزدیک ہے، یہ ان کی سیاست کا آخری یوٹرن ہوگا، جب سلیکٹڈ کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے تو انہیں یوٹرن دے دیا جاتاہے۔
یاد رہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا جب کہ ترمیمی آرڈیننس سے ٹیکس اور اسٹاک ایکسچینج سے متعلق معاملات میں بھی نیب کا دائرہ اختیار ختم ہوجائے گا۔
نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کے نفاذ کا نوٹیفکیشنوزارت قانون کی جانب سے جاری ہو چکا ہے جس کے مطابق نیب حکومتی منصوبوں اور اسکیموں میں بے ضابطگی پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا.
تاہم کسی پبلک آفس ہولڈر نے بے ضابطگی کےنتیجے میں مالی فائدہ اٹھایا تو نیب کارروائی کر سکتا ہے، وفاقی و صوبائی ٹیکس اور لیویز کے زیر التوا مقدمات بھی متعقلہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا اور اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا مگر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔
وفاقی کابینہ نے27 دسمبر کو بذریعہ سرکولیشن قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی آرڈیننس پر دستخط کیے تھے۔
صدر مملکت کے نیب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کے بعد یہ نافذ العمل ہوگیا ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے آرڈیننس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور تمام جماعتوں نے اسے مسترد کیا ہے۔