پاک بھارت تناوکم ہوگیا، طالبان سےمزاکرات ختم، ایرانی صدر سے مل سکتا ہوں.ٹرمپ

0

واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ میں کمی واقع ہوئی ہے۔طالبان سےمزاکرات ختم ہو چکے، ایران کے صدر سے مل سکتا ہوں.

وہ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی۔

انہوں نےساتھ یہ بھی کہا کہ اگر دونوں ملک چاہتے ہیں تو میں مدد کے لیے تیار ہوں، وہ جانتے ہیں میری پیشکش اب بھی برقرار ہے۔میرے پاکستان اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے متعلق سوال پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے معاملے پر ایک تناؤ ہے.

انھوں نے کہا میرے خیال میں اس وقت ان دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، دو ہفتے پہلے جو تھا اب ویسا نہیں ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ طالبان کے ساتھ امریکا کے امن مذاکرات اب ’مر‘ چکے ہیں، جہاں تک میرا تعلق ہے، مذاکرات ختم ہوچکے ہیں۔صدر ٹرمپ نے کہاکہ ان کی انتظامیہ امریکی افواج کے انخلا کے عمل پر غور کررہی ہے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان سے باہر نکلنا چاہیں گے لیکن درست وقت پر نکلیں گے۔

گزشتہ ہفتےافغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ تقریباً طے پاچکا تھا جسے امریکی صدر کی توثیق درکار تھی تاہم صدر ٹرمپ نے کابل دھماکوں کے بعد افغان طالبان سے معاہدہ ختم کردیا جب کہ ان سے ڈیوڈ کیمپ میں خفیہ ملاقات بھی منسوخ کردی۔

ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات سے متعلق سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایرانی صدر حسن روحانی سے مل سکتے ہیں، انہیں اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے، یہ ہوسکتا ہے۔

امریکی صدر کاکہنا تھا کہ ایران کو اپنی سمت درست کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت وہ بہت بری پوزیشن میں ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایران میں مہنگائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے 24 گھنٹوں میں حل کرسکتے ہیں، ہر چیز ممکن ہے، وہ (ایران) اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔

یاد رہے کہ 2015 کی ایٹمی ڈیل سے دستبردار ہونے کے بعد امریکی صدر نے ایران پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں جب کہ
ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ایران امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں کے ختم کیے جانے تک اس سے بات نہیں کرے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.