وہاڑی،پو لیس کا نجی ٹارچر سیل میں خاتون پر تشدد کا ایک اور واقعہ
راولپنڈی (زمینی حقائق) پنجاب پولیس کا بھیانک روپ پورے سسٹم کے منہ پر طمانچہ بن کر برسنے لگا،کوئی دن سلامت نہیں گزرتا جب کہیں نہ کہیں پر پولیس نے انسانیت کی تذلیل نہ کی ہو۔ اب کی بار وہاڑی میں پولیس کے مبینہ نجی ٹارچر سیل میں خاتون پر تشدد کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر تشدد کرنے والے اہلکاروں نے حالت غیر ہونے پر خاتون کو اس کے گھر کے باہر چھوڑ دیا اور فرار ہو گئے۔
پولیس تشدد سے چور چور متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ پولیس نے اسے سونا چوری کے الزام میں گرفتار کیا اور دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پولیس کے بھیانک روپ کی روح فرسا داستانیں ہیں، کسی پولیس تھانے ، چوکی یا گلی محلے میں پولیس نفسیاتی مریضوں کی طرح ملزمان پر حملے کرتی ہے ، میڈ یا رپورٹ کرے تو حکام جاگتے ہیں متعلقہ اہلکار معطل پھر بحال پھر وہی کہانی چل پڑتی ہے۔
تازہ واقعہ میںآئی جی پنجاب عارف نواز خان کے نوٹس پر وہاڑی میں خاتون پر تشدد میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے،گرفتار ملزمان میں ڈی ایس پی، ایس ایچ او، انچارج سی آئی اے اور محرر سمیت 8 افراد شامل ہیں۔
یاد رہے وزیراعلی پنجاب کے نوٹس پر پولیس ایکشن میں آئی اور آر پی او ملتان متاثرہ خاندان سے ملنے پہنچے اور انہیں انصاف کی یقین دہانی بھی کرائی۔
ابتدائی تحقیقات میں خاتون بے قصور اور پولیس اہلکار قصور وار قرار پائے ہیں، لیکن عوام خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں تفتیش آگے بڑھے گی اور یہ بتدائی رپورٹ الٹ ہو جائے گی۔
آئی جی پنجاب نے رحیم یار خان میں صلاح الدین کے قتل کے بعد کہا تھاکالی بھیڑوں کی پولیس میں کوئی جگہ نہیں ہے لیکن ایک اور جرم نے ثابت کردیا وہ آئی جی کا محض ایک بیان تھا۔
پنجاب پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ وہاڑی میں خاتون پر تشدد کے الزام میں پولیس اہلکاروں اور مقامی زمیندان کے دو بیٹوں سمیت 13 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
آئی جی پنجاب نے دیگر ملزمان کو بھی فوری گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرائیویٹ لاک اپ بنانے اور ملزمان پر تشدد میں ملوث کالی بھیڑوں کی پولیس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی وہاڑی میں خاتون پر پولیس تشدد کے واقع کا نوٹس لیتے ہوئے مفرور ملزمان کو جلد گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
عثمان بزدار نے کہا کہ وہاڑی میں خاتون پر پولیس تشدد کا واقعہ روایتی پولیس کلچر کی بدترین مثال ہے،انہوں نے کہا کہ ایسے افسوسناک واقعات میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کرنا کافی نہیں، خاتون پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کیا جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ پولیس کو کسی صورت بھی غیر انسانی فعل کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔