قاضی نے تحریک انصاف سے بلہ چھین لیا،پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم

57 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: قاضی نے تحریک انصاف سے بلہ چھین لیا،پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے رات ساڑھے 11 بجے فیصلہ سنایا.

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلےکے انتخابی نشان کےکیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی سے بلا واپس لینے فیصلہ سنادیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا.

سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہو ئی جو شام 7 بجےکے بعد بھی جاری رہی، فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو ساڑھے 11 بجے تک لٹکا کر سنایا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں، فیصلہ متفقہ طور پر سنایا گیا۔

عدالتی فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلےکا نشان واپس لے لیا گیا ہے۔5 صفحات کاتحریری فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی نےتحریرکیا اور چیف جسٹس نے خود ہی کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹراپارٹی انتخابات کرانےکا نوٹس 2021 میں کیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانےکا وقت دیا.

الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینےکا بتایا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ 5 رکنی بینچ بنا جو زیر التوا ہے، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔

پشاور ہائی کورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سےلیا.

فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے، ایک معاملہ ایک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسری ہائی کورٹ میں نہیں چیلنج ہوسکتا.

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نےکہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائی کورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کرانا ہوتے ہیں.

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں کرا رہے ہیں، پشاور ہائی کورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا.

فیصلہ میں زیادہ تر وہی نکات شامل ہیں جو دن بھر کی سماعت کے دوران دوران چیف جسٹس اٹھاتے رہے اور ریمارکس دیئے تھے.

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں الیکشن۔

گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کے سامنے انٹراپارٹی انتخابات کی شفافیت بارے تفصیلات پیش کی تھیں۔

 اس سے قبل دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التواء رکھ کر پشاور ہائیکورٹ کیسے پہنچے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات وفاقی اور صوبائی تمام عہدیداروں کا ایک ہی چیف الیکشن کمشنر نے نوٹیفکیشن کیسے کیا، کیا وفاقی اور دیگر صوبوں کے الیکشن کمیشن کے ممبران موجود تھے یا نہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چھوٹے سے گمنام گاوٴں میں انتخابات کیوں کروائے، جس پر پی ٹی آئی وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ پشاور کے علاوہ کہیں اور سکیورٹی فراہم نہیں کی جا رہی تھی۔

یاد رہے کہ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔

Comments are closed.