فائل:فوٹو
اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں نوازشریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی عدالت نے کہا جب کرپشن ہی نہیں تو پھر آمدن سے زائد اثاثے کیسے آ گئے؟چیف جسٹس کے ریمارکس۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کی اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامرفاروق کے ریمارکس میں یہ بیھ کہا گیا کہ ایک عوامی نمائندہ کے اثاثے اگر معلوم آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو بغیر کرپشن کے وہ یہ کیسے بنا سکتا ہے؟
سابق وزیراعظم نواز شریف ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز میں سزا کیخلاف اپیلوں کی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے،نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پاناما جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔
وکیل نے موقف اپنایا کہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ دیا، 28 جولائی کو وزیر اعظم پاکستان کو نااہل قرار دیا گیا، سپریم کورٹ نے فیصلے کے چھ ہفتوں میں نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
امجدپرویز نے کہا کہ نواز شریف، مریم نواز ، حسین نواز ، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا گیا ، فیصلے کی روشنی میں نواز شریف ، حسین اور حسن نواز کیخلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس دائر کیا گیا۔
نیب دوران جرح تسلیم کرچکی ہے کہ ہمارے پاس ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا، احتساب عدالت کو چھ ماہ میں ریفرنس پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
کہا فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف بری ہوئے، العزیزیہ میں 7 سال اور ایون فیلڈ میں دس سال کی سزا ہوئی، العزیزیہ میں نیب نے سزا بڑھانے کی اپیل دائر کررکھی ہے۔
امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ہم نے جے آئی ٹی کا والیم 10 مانگا تھا مگر ہمیں فراہم نہیں کیا گیا، نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنسز دائر کر دیے، نیب نے نواز شریف کو ایک کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔
انھوں نے کہا گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے، نیب نے ٹی وی انٹرویوز پیش کیے، نواز شریف کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریر کا حوالہ دیا، ایک گواہ رابرٹ ریڈلے پیش کیا جو نواز شریف کی حد تک کیس میں متعلقہ گواہ نہیں۔
وکیل نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں 19 اکتوبر کو فرد جرم عائد کیا گیا، والیم دس ایم ایل اے پر مشتمل تھا ، ہم نے والیم دس مانگا تھا مگر ہمیں فراہم نہیں کیا گیا، نیب کے کال اپ نوٹس میں تفتیش سے متعلق کچھ نہیں ہے۔
اس دوران جسٹس حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ تو نیب نے اپنی طرف سے الگ سے کوئی تفتیش نہیں کی؟وکیل امجد پرویز نے جوابد یا کہ جی بالکل، نیب نے صرف جے آئی ٹی کے سامنے بیان کی تصدیق چاہی، نیب نے نواز شریف کو خود سے کوئی سوالنامہ نہیں دیا۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کر دی؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا، ہمارا مؤقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ معذرت کیساتھ نا چارج صحیح فریم ہوا اور نا نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مریم نواز بینفشل اونر ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ نیب نے یہ کوشش ضرور کی مگر اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
وکلا نے کہا کہ احتساب عدالت نے نواز شریف پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کا الزام مسترد کر دیا، نیب نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر نہیں کی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جب کرپشن ہی نہیں تو پھر آمدن سے زائد اثاثے کیسے آ گئے؟ایک عوامی نمائندہ کے اثاثے اگر معلوم آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو بغیر کرپشن کے وہ یہ کیسے بنا سکتا ہے؟
بعد میں عدالت نے اپیلوں پر سماعت بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی دو اپیلیں بھی سماعت کے لیے مقرر کردیتے ہیں۔
Comments are closed.